الوقت - ابتدائی اعتراض کے بعد امریکا میں اوباما انتظامیہ نے ایران اور ہندوستان کے درمیان ہونے والے چابہار معاہدے کی تائید کی ہے۔
واضح رہے کہ اس معاہدے کے تعلق سے امریکی قانون سازوں میں سے چند کو اندیشہ تھا کہ اس کے اسٹرٹیجک اور فوجی پہلو بھی نکلتے ہیں۔ اس سے قبل امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر نے سینیٹ کے ارکان کے اعتراص پر کہا تھا کہ اوباما انتظامیہ ایران کے اس منصوبے کی باریی سے جانج کرے گا۔ جنوبی اور وسطی ایشیا کے امور ک معاون خارجہ نشا دیسائی بسوال نے کہا ہے کہ ہم نے ہندوستانیوں کو اس سلسلے میں واضح طور پر بتا دیا ہے کہ ایران کے خلاف کس طرح کی پابندیاں عائد ہیں ۔ انھوں نے سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ ہمیں چابہار منصوبے کی تفصیلات پر غور کرنا ہوگا۔ آیا سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے چابہار بندرگاہ کی توسیع کے معاہدے پر ایران اور افغانستان کے صدور کے ساتھ دستخط کئے تھے اور اس منصوبے کے لئے 50 کروڑ ڈالر کی رقم دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے ہندوستان کے لئے ایران، افغانستان، اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کا راستہ کھل جائے گا۔ فی الحال پاکستان نے ہندوستان کے لئے اس راستے کو بند کررکھا ہے۔ وزیر کے مطابق ہم سمجتھے ہیں کہ ایران کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات بنیادی طور پر اقتصادی اور توانائی کے سلسلے میں ہیں۔ ہندوستان کی نظر سے یہ بندرگا افغانستان اور وسط ایشیا کے لئے اس کا گیٹ وے ہے۔ ایران کے ساتھ ہندوستان کا فوجی تعاون جیسا کوئي تعلق نہیں ہے جس سے امریکا کے لئے خطرہ پیدا ہو۔