سوال : موجودہ حساس صورتحال میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایران کا دورہ کیا، آپ کی نظر میں اس دورے کی کیا اہمیت ہے ؟
جواب : ہندوستان میں تو اس دورے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ پورے دن ٹی وی ، اخباروں، سوشل میڈیا پر یہ خبریں چھائی رہیں۔ ہندوستان کی ایران سے کوئی نئی دوستی نہیں ہے بلکہ بہت پرانی دوستی رہی ہے۔ یعنی ہزاروں سالہ پرانی دوستی ہے اور اس میں مسلسل توسیع ہو رہی ہے۔ ہندوستان کے لئے ایران بہت ہی اہم ملک ہے، وہ چاہتا ہے کہ ایران سے اس کےرشتے بنے رہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایران میں انقلاب آنے کے بعد خاص پر عالمی پابندیاں ہٹنے کے بعد دونوں ہی ملکوں نے اپنے تعلقات میں توسیع پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ ہندوستان کے لئے چابہار بہت ہی اہم ہے کیونکہ اس منصوبے سے ہندوستان کے تعلقات ایران سے قریبی ہوں گے۔ ہندوستان، سنٹرل ایشیا میں داخل ہونے کے لئے ایران کو ایک دروازے کے طور پر دیکھتا ہے۔ ایران پہلے ہندوستان کا پڑوسی ملک ہوا کرتا تھا آزادی سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد یہ راستہ بند ہو گیا اور اب چابہار کے ذریعے یہ راستہ دوبارہ کھلنے جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہوں گے۔ ایران بہت اہم ملک ہے علاقے کا، یہ ملک نہ صرف سینٹرل ایشیا بلکہ مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا سے بھی اس کی سرحدیں ملتی ہیں اسی لئے یہ ملک بہت ہی اہم ہے اور ہندوستانی اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔
سوال : پابندی کے خاتمے بعد یورپ کے متعدد وفود ایران آئے، لیکن امریکا کی جانب سے یورپ اور یورپی بینکوں پر دباؤ ہے اور ابھی تک معاہدوں پر عمل در آمد نہیں ہو سکا، آپ کی نظر میں ہندوستان امریکا کے دوباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایران سے اپنے تعلقات میں توسیع کا عمل جاری رکھے گا؟
جواب : جی ہاں پوری طریقے سے ، میں سمجھتا ہوں کہ جب ایران پر پابندیاں لگی تھیں اس وقت ہندوستان پر بہت دباو تھاکہ تیل مت خریدو لیکن اس وقت ہندوستان نے تیل کی خریداری جاری رکھی۔ اس وقت ہندوستان پر بہت ہی زیادہ دباؤ تھا جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہندوستان-امریکا ایٹمی معاہدہ ہونا تھا، ہندوستان پر بہت زیادہ پابندیاں عائد تھیں۔ ہائی ٹیکنالوجی ہم خرید نہیں پار ہے تھے اس کے لئے یہ معاہدہ ضروری تھا۔ جب اس وقت ہندوستان نے دباو قبول نہیں کیا تو اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں خودمختاری سب سے اہم ہے اور اب تک کوئی حکومت اس خودمختاری کو ختم نہیں کر سکی ہے۔ ہندوستان اپنے قومی مفاد پر کام کرتا ہے اور اس کے قومی مفاد کا تقاضہ ہے کہ اس کے ایران سے تعلقات اچھے رہیں۔ جب مفاد کا مسئلہ ہوتا ہے تو ہندوستان کبھی بھی اس کو نظر انداز نہیں کرسکتا کیونکہ اس کو دوسرے ممالک میں داخل ہونے کے لئے ایران کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ 6 سے 8 فیصد تک اقتصادی پیشرفت بڑھانی ہے جس کے لئے ہندوستان کو تیل اور گیس کی ضرورت ہے اسی لئے وہ ایرانا سے گیس پائپ لائن ہندوستان لانا چاہتا ہےجو سمندر کے نیچے سے آئے گی، اس کے بعد فرزاد گیس فیلڈ میں بھی ہندوستان سرمایہ کاری کر رہا ہے، اسی طرح ہندوستان اکنومک زون میں ہندوستان کی نجی اور سرکاری کمپنیاں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔
سوال : ایران کے حوالے سے ہندوستان میں جو منفی تاثر تھا، یہ دورہ اس منفی تاثر کو دور کرنے میں کتنا اہم واقع ہو سکتا ہے :
جواب : ہندوستان کی عوام، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے چاہنے والے ہوں، ایران سے تعلقات میں توسیع کے خواہشمند ہیں، ایران سے ہمارے بہت ہی قدیمی تعلقات ہیں۔ ہمارے تعلقات بہت خصوصی ہیں۔ ہماری ہر چيزوں ثقافت سے لے کر کھانے اور کپٹرے تک پر ایران کا اثر ہے اسی طرح یہی اثرات ادھر گئے ہیں ۔ یہ رشتے بہت مضبوط ہیں اسے کوئی بھی حکومت ختم نہیں کرسکتی اور ایک خاص قوم یا مذہب اس کو متاثر نہیں کرسکتے ۔