الوقت - جوہری معاہدے کے نافذ ہونے کے بعد، ایشیا کے بڑے ممالک نے ایران کے ساتھ تعاون میں دلچسپی دکھائی ہے۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے وفود کے ایران کے دوروں اور اب ہندوستان کے وزیر اعظم کے تہران دورے سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف شعبوں میں باہمی تعاون میں توسیع کا رجحان بڑھا ہے۔
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اتوار کی شام تہران پہنچے اور پیر کی صبح ایرانی صدر حسن روحانی نے ان کا باضابطہ استقبال کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے رہنماؤں نے گفتگو کی۔ ہندوستان ایشیا کی ایک بڑی معیشت ہے اور دنیا کی ابھرتی ہوئی ایک اقتصادی طاقت۔
ایران کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات، ایرانی مصنوعات کے لئے ہندوستان کا بڑا بازار اور ہندوستان کی توانائی کی ضروریات کی وجہ سے یہ ملک ایران کے تجارتی شرکاء میں دوسرے نمبر پر ہے۔ چین کے بعد ہندوستان، ایران سے تیل درآمد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور ہندوستان اپنی درآمد کو مزید بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
نریندر مودی کے تہران دورے کو ایران میں مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ مودی کے تہران دورے کے دوران سہ فریقی اجلاس کے لئے افغان صدر دورہ تہران ، اس سفر کے اسٹراٹیجک اہداف کی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔
ہندوستان، ایران اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی معاہدے کے ساتھ چابہار بندرگاہ کے راستے ہندوستان، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک آسانی سے اپنی پہنچ بنا سکتا ہے۔ ایران، ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات میں نیا باب شروع ہو گیا ہے اور اس میں چابہار، ٹرانزٹ، توانائی اور تجارت کے مرکزی علاقے کے طور پر تبدیل ہو رہا ہے۔
ہندوستانی وزیر اعظم نے اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر کہا ہے کہ چابہار شعبے میں سرمایہ کاری ایران، ہندوستان اور پورے علاقے کے مفاد میں ہو سکتی ہے۔ ہندوستان کی چابہار بندرگاہ اور اسپیشل اكنومک زون میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی ہے۔
ہندوستان کے وزیر اعظم نے صدر روحانی کی موجودگی میں سہ فریقی معاہدے پر دستخط کئے ہيں ۔ افغانستان اور ہندوستان دونوں ملک کئي برسوں سے ، ایران کے چابہار بندرگاہ کے سلسلے میں تعاون کے خواہاں رہے ہیں کیونکہ یہ دونوں ملک ، پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کے باعث چابہار کو ، گوادر اور کراچی بندر گاہوں کا نعم البدل سمجھتے ہيں ۔
در اصل علاقائي تجارت میں ایران کے چابہار بندرگاہ کی بہت اہمیت ہے اور ہندوستان ، اس بندرگاہ کو خاص طور پر وسط ایشیائي ملکوں تک رسائی کے لئے بہترین راستہ سمجھتا ہے ۔ چابہار بندرگاہ کے پہلے فیس کی تعمیر کے سلسلےميں ایران اور ہندوستان ایک معاہدے پر دستخط کر چکے ہيں جس کے مطابق ہندوستان پچاسی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا اور دس سال تک بندرگاہ کے پہلے فیز کو استعمال کرے گا ۔
ہندوستان در اصل ایران کے راستے افغانستان کے بازار تک رسائی چاہتا ہے تاکہ وہاں سے وہ وسط ایشیائي ملکوں تک پہنچ سکے ۔ در اصل پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کی وجہ سے ہندوستان ، پاکستان کے راستے افغانستان تک نہيں پہنچ سکتا اس بناء پر چابہار ، ہندوستان کے لئے اسٹریٹجیک اہمیت کا حامل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نے ایران کے صدر اور قائد انقلاب اسلامی سے اپنی ملاقات کو ایران اور ہندوستان کے درمیان تعاون میں فروغ کا ایک اہم موقع قرار دیا ہے ۔