الوقت - ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اتوار کی دوپہر ایران کے دو روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔
اس دورے کے دوران دونوں ممالک میں کئی اہم سمجھوتے ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے سب سے خاص چابہار بندرگاہ کو لے کر ہونے والا سمجھوتہ ہے۔ اس سمجھوتے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت آسان ہو جائے گی۔
ایٹمی پروگرام کو لے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد تھیں۔ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہوئے معاہدے کے بعد اس پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ہٹائی گئیں۔
ہندوستانی حکومت کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ایران پر سے پابندی ہٹائے جانے کے بعد کوشش ہے کہ ہندوستان اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور ایران سے تعلقات تیزی سے بڑھا ئے جائیں۔ ہندوستانی عہدیدار کے مطابق، مودی کا ایران دورہ انتہائی کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس کے فوائد مستقبل میں نظر آئیں گے۔ ہندوستان کی کئی بڑی کمپنیاں ایران میں آئی ٹی اور دوسرے شعبے میں کام کرنا چاہتی ہیں۔ اس دورے سے ان کمپنیوں کے لیے فائدہ ہوگا۔
ایران چابہار بندرگاہ کی توسیع چاہتا ہے اور ہندوستان اس میں مدد کو تیار ہے۔ اس کے پہلے فیز کی توسیع کے لئے دونوں ممالک میں سمجھوتہ ہونے جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایران کو تیل کے شعبے میں بھی ہندوستان کی مدد کی جا رہی ہے۔ چابہار
بندرگاہ کے تیار ہو جانے کے بعد ہندوستان اور ایران براہ راست ٹریڈ کر سکیں گے۔ ہنوستانی یا ایرانی بحری جہاز کو پاکستان کے راستے سے نہیں جانا پڑے گا۔ اس سمجھوتے میں افغانستان کا بھی اہم کردار ہوگا۔ اتوار کی شام تہران پہنچنے کے بعد مودی، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے ملیں گے۔
چابہار بندرگاہ ٹریڈ اور اسٹرٹیجک لحاظ سے ہندوستان کے لئے کافی اہم ہے۔ اس لیے کہ سمندری راستے سے ہوتے ہوئے ہندوستان کے جہاز ایران میں داخل ہو سکتے ہیں اور اس کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیا تک کی مارکیٹ ہندوستانی کمپنیوں اور تاجروں کے لئے کھل جائیں گے۔ یہ ضروری اس لئے بھی ہے کہ پاکستان نے آج تک ہندوستان کی پیداوار کو براہ راست افغانستان اور اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ پر تو ایک طرح سے چین کا ہی کنٹرول ہے۔ چابہار بندرگاہ کا سمجھوتہ 2015 میں ہی فائنل ہو گیا تھا لیکن بعد میں کچھ دقتیں آ گئیں تھیں۔
خلیج فارس میں او این جی سی کی دریافت کرنے والے فرحزاد بی گیس فیلڈ کی توسیع کا حق بھی ہندوستان طویل عرصے سے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اب یہ ہندوستان کو مل بھی گیا ہے۔ دونوں ملک اب اس پر کارروائی کر سکتے ہیں۔ ہندوستانی آئل کمپنیوں کو اس اسکیم سے کافی فائدہ ہوگا۔
چین کے صدر شی جن پنگ جنوری میں ایران گئے تھے۔ ثقافتی لحاظ سے بھی ہندوستان اور ایران کافی قریب ہیں۔
مودی کو ایران آنے کی دعوت خود وہاں کے صدر نے دی ہے۔ ایران ریلوے اور آئی ٹی سیکٹر میں ہندوستان سے پہلے ہی مدد مانگ چکا ہے۔
مودی اتوار کو تہران میں واقع گردوارے میں جائیں گے اور سکھ برادری سے ملاقات کریں گے۔ ایران کے بعد نریندر مودی قطر بھی جائیں گے۔