الوقت - بہار عربی کی تبدیلیوں سے پہلے تک سعودی عرب نے روایتی طریقے سے بہت ہی محتاطانہ اور پرامن خارجہ پالیسی اختیار کئے ہوئے تھا اور وہ کھلے ٹکراو اور تصادم سے گریز کرتا تھا اور حالات سے حساب سے بدل جاتا تھا لیکن 2011 میں عرب تحریکوں کے سبب سعودی عرب اپنے پرامن اور چین و سکون کے خول سے باہر نکل گیا۔ اس طرح سے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کی ماہیت اور لہجے میں اساسی تبدیل رونما ہوگئی اور وہ زیادہ گستاخ ہوگئیں۔ گرچہ بہت ہی کم سعودی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ یہ تبدیلی، اعتماد بہ نفس میں اضافے کا سبب بنتی ہے لیکن اصل ماجرا یہ ہے کہ یہ گستاخی، نقصانات کے احساس سے برآمد ہوئی ہے۔
در حقیقیت سعودی عرب میں خطرے کا احساس 2011 کی تحریکوں سے قبل ہی پیدا ہو گیا تھا اور عراق پر امریکا کے حملے کے بعد علاقے میں طاقت کے توازن کے احساس نے یہ کام شروع کرنے پر مجبور کر دیا۔ حالیہ عشروں کے دوران، شامات کے علاقے پر سعودی عرب کے اثر و رسوخ کے فقدان کا پوری طرح احساس کیا جا سکتا تھا اور اس کی خارجہ پالیسی عراق، شام اور حزب اور حماس کے بارے میں ایران سے پوری طرح متضاد تھی۔ عراق کی حمایت، شام کے ساتھ اتحاد قائم کرنا اور حزب اللہ اور حماس کی حمایت، ایران کی خارجہ پالیسی میں ترجیحات میں ہے۔ سعودی عرب نے علاقے میں ایران کی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے مصر اور اردن جیسے دوست ممالک کے ساتھ اتحاد کو مزید مضبوط کر لیا اور اپنی خام خیالی میں ہلال شیعی کے مقابلے میں محور سنی قائم کر لیا۔
2011 کی نا امنی نے ریاض کا پوری طرح محاصرہ کر لیا اس طرح سے کہ مشرق سے بحرین میں بغاوت، جنوب سے یمن، مغرب سے شام اور شمال سے عراق میں جاری مسلسل ناامنی کی وجہ سے سعودی حکام خوف زدہ ہوگئے خاص طور پر ملک کے مشرقی علاقوں میں حکومت مخالف شیعہ اقلیت کی تحریک نے آل سعود کی نیندیں حرام کر دیں۔ اس کے بعد سے سعودی عرب نے سفارتی، ذرائع ابلاغ اور تمام حربوں کا استعمال بحرین، یمن اور شام میں کیا۔ سعودی عرب نے علاقے میں اپنی سربراہی اور قیادت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی کوششوں کو شدید دھچکا اس وقت لگا جب وہ خلیج فارس تعاون کونسل کے ارکان کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں ناکام ہو گیا۔
2011 میں خلیج فارس کے ممالک کو متحد کرنے اور واشگنٹن کی حمایت کے باوجود خلیج فارس کی فوجی توانائی کو زیادہ متحد کرنے کا سعودی عرب کا منصوبہ ناکام ہو گیا ۔ ایران اور عرب تحریکوں کے بارے میں خلیج فارس کے ساحلی ممالک کے درمیان ہونے والا معاہدہ پائدار نہیں تھا اور یہ سیاسی اختلافات، لیبیا کے بارے میں قطر اور امارات، مصر اور اخوان المسلمین کے درمیان دشمنی کا سبب بن گئے اور انھیں اختلافات کے سبب قطر اور سعودی عرب کا تصادم شام میں ہو گیا۔
در ایں اثنا شاہ سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے شطرنج کی اپنی چال بدل دی اور سعودی عرب کی بادشاہی کو ایران کے خلاف اقدامات پر مرکوز کر دیا۔ اسی کے ساتھ اس نے داعش کے خطرے سے مقابلے کے لئے قابل توجہ حمایت بھی حاصل کر لی۔ سعودی عرب نے اسی طرح نام نہاد اسلامی ممالک کے اتحاد کی تشکیل کا نعرہ دیا جس میں عمان کو چھوڑ کر اردن، مغرب، مصر، سوڈان جیسے ممالک نے اس کا ساتھ دیا۔ سعودی عرب نے پاکستان کو بھی اپنے ساتھ لانے اور علاقائی مسائل میں اسے بھی الجھانے کی کوشش کی تاہم وہ اس حد تک کامیاب نہ ہو سکا۔
بہرحال سعودی عرب اپتنے مفاد کی حفاظت کے لئے اپنے مالی اور فوجی وسائل کا جم کر استعمال کر رہا ہے۔ سعودی عرب نے علاقے میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کو اپنی ترجیحات قرار دیا ہے تاکہ علاقے کی خطرناک صورتحال سے مقابلہ کر سکے۔ سعودی عرب علاقے کے حالات سے جیسا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا وہ نہیں اٹھا سکا اور اس سے اس کی خارجہ پالیسی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔