الوقت - سعودی عرب کی قیادت میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک، ہمیشہ سے علاقے میں ایران کے اثر و رسوخ سے تشویش میں مبتلا رہیں ہیں اور یہ خوف و ہراس ایسی چیز نہیں ہے جسے وہ آسانی سے چھپا سکیں۔ اسی طرح خلیج فارس تعاون کونسل کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے اثرو رسوخ کے سامنے دست بستہ ہیں اور ان کو پتا نہیں ہے کہ کیا کریں۔ یہی سبب ہے کہ وہ ایران کے اثرو رسوخ کو روکنے کے لئے ہر طرح کی کوشش کر رہے ہیں لیکن در حقیقت ان رہنماؤں کی تشویش کی اصل وجہ کیا ہے؟ موجود وقت میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک ایران کو چار شعبوں میں خطرناک تصور کر رہے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایران کی انقلابی ایڈیالوجی
انقلاب ایک ایسا عمل ہے گرچہ یہ قومی سطح پر ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس کی ماہیت قومی سطح سے بھی آگے کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کا ہر انقلاب تاریخ میں اپنے پیغام کو پھیلانے اور دنیا کے دوسرے لوگوں تک اسے پہنچانے کی کوشش میں رہتا ہے۔ انقلاب کے آنے سے ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ جن سے انقلابی حکومت اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان جنگ و جدال کے شدید ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ ایران میں انقلاب آنا بھی اس خصوصیت سے مستثنی نہیں تھا۔ اس بنا پر بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کی تشکیل کا اصل ہدف، ایران کے انقلاب اور اس کی پالیسیوں کا صادر سے مقابلہ کرنا ہے۔
ایران کی فوجی طاقت
ایران کو خطرہ سمجھنے کا ایک سبب فوجی طاقت ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران کو گزشتہ تین عشرے سے فوجی شعبے میں بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا رہا ہے اور اس کا روایتی ساز و سامان انقلاب سے پہلے کا ہے۔ ان سب سے باوجود ایران کی فوجی صنعت نے بہت زیادہ پیشرفت کی ہے۔ غیر ملکی لحاظ سے ایران فوجی لحاظ سے ایٹمی صنعت میں سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اس کی میزائل توانائی اور جنوبی آبی سرحدوں میں موجود اس کی بحریہ، فوجی لحاظ سے سب سے بڑا خطرہ تصور کئے جاتے ہیں۔
ایران کی ایٹمی ٹکنالوجی
نئے نظریات کے مطابق جب کوئی حکومت ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کر لیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے وہ حکومت نئی ٹکنالوجی کی حامل ہے۔ ایران نے بھی ان مسائل کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے نینو ٹکنالوجی، اسٹم سلز، ائیرو اسپیس اور ایٹمی توانائی سمیت نئی ٹکنالوجی میں سرمایہ کاری شروع کی اور اس نے اس شعبے میں کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ ایٹمی ٹکنالوجی کے شعبے میں ایران کی کوششیں ایسی حالت میں جاری ہیں کہ ایران این پی ٹی کا سرگرم رکن ہے اور اس کو پر امن ایٹمی توانائی رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔
خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک میں شیعہ اقلیت کو ورغلانہ
خلیج فارس کے ساحلی علاقوں پر موجود ممالک کے سیکورٹی انحصار کا اہم عنصر مذہب ہے۔ اس حوالے سے خلیج فارس کی حکومتیں مذہبی اقلیت کے بارے میں اپنے پڑوسی ممالک کی پالیسیوں پر بہت زیادہ حساس ہیں۔ اس سے بڑھ کر شام، بحرین اور عراق کے مسائل کو لے کر بھی علاقے کے ممالک ایران کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔ شامات اور شمالی افریقہ کے علاقوں سے انقلاب کی لہر کا خلیج فارس کے ملک بحرین میں پہنچنا، ایران اور خلیج فارس کے رکن ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کا مقدمہ بن گیا۔ خلیج فارس تعاون کونسل کے ارکان کے مطابق، ایران کی جانب سے سب سے بڑا خطرہ، تہران کی جانب سے ان ممالک کے اقلیت افراد کو جمع کرنا اور حکومت کے خلاف ان کو کھڑا کرنا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں خلیج فارس تعاون کونسل نے مندرجہ ذیل پالیسی ایران کے حوالے سے اختیارکر رکھی ہے۔
(الف) خیلج فارس کے ممالک نے گزشتہ کچھ برسوں میں فرقہ واریت کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے ایران کو شیعہ حکومت بتانے کی کوشش کی۔ اس کے مقابلے میں ایران نے خود کو مسلمان حکومت اور مغرب کے مقابلے میں تمام مسلمانوں کے مفاد کی حامی اور فرقہ واریت سے دور حکومت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ بحرین، عراق اور شام کے حالات میں اس تصور کو بدل کر ہی رکھ دیا گیا۔ اس بنا پر ایران اور حزب اللہ لبنان پر ان ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کا الزام عائد کیا گیا جبکہ ایران نے فرقہ واریت کو ایک جانب رکھتے ہوئے مصر، تیونس، لیبیا اور فلسطینی گروہوں کی بھرپور اور ہمیشہ حمایت کی ہے جبکہ یہ تمام سنی گروہ ہیں۔
(ب) ایران کو کنٹرول کرنے کی کوشش : خلیج فارس تعاون کونسل کی ساری کوشش ایران کو کنٹرول کرنا ہے۔ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کی یہ ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ایران کے اثر و رسوخ کو کنٹرول کیا جائے لیکن اس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔