ترکی کے سیاسی محاذ سے داود اوغلو کے نکل جانے سے یہ ملک داخلی اور خارجہ سیاست کے نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور ممکن ہے کہ یہ ملک انتہا پسندی کی جانب بھی بڑھ سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان حالات میں ترکی اپنی ناکام داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کا جبران کر سکتا ہے اور یہ بھی دیکھا ضروری ہے ترکی کے لئے امریکا کا پلان B کیا ہے؟
22 مئی یعنی دو ہفتے بعد ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اپنی ایمرجنسی نشست میں پارٹی کے سربراہ کا انتخاب کرے گی اور پارٹی کے موجودہ سربراہ احمد داود اوغلو نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ وہ پارٹی کی سربراہی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہاں پر یہ بات واضح ہے کہ پارٹی اور پارٹی کی ایگزیکٹیوکی کونسل کے دو تہائی ووٹ اردوغان کے ہیں، جہاں پارٹی کے اہم فیصلے لیے جاتے ہیں، اسی لئے وہ اس سے پریشان نہیں ہیں اور توانائی کے وزیر اپنے داماد کو یہ عہدہ دے سکتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ داود اوغلو کے جبری استعفے کی وجہ ملکی امور کے انتظام میں دونوں رہنماؤں کے درمیان شدید اختلافات ہے۔ داود اوغلو پارلیمانی نظام کے بدلے ریاستی نظام کے مخالف ہیں کیونکہ اس سسٹم سے ان کے سارے اختیار ختم ہوگئے۔ امریکیوں نے بھی جو احمد داود اوغلو کے حامی ہیں، ان کو لیبرل اور اپنا حامی قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے داود اوغلو کے سیاست سے نکل جانے سے داعش کے خلاف جنگ کے بارے میں امریکا اور ترکی کے تعلقات میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔ داود اوغلو پارٹی کے قدیمی رکن ہیں اور وہ یورپی یونین، مغرب اور صیہونی حکومت سے مذاکرات کے سربراہ ہیں اور اسی طرح انھوں نے ترکی کے اقتصادی بحران کے وقت میں اہم کردار ادا کیا۔ داوود اوغلو نے پارٹی میں بہت تیزی سے ترقی کی اور جلدی ہی پارٹی کے اعلی عہدے پر فائز ہوگئے۔ انھوں نے اپنے دم پر ملک کی خارجہ پالیسی اور سیکورٹی مسائل کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ اگر اردوغان کو اخوان المسلمین کا روایتی اور کلاسک مظہر کہا جائے، اوغلو اخوانی ہونے سے پہلے ایک لیبرل مسلمان ہیں جنھوں نے خود کو سیاست کے قوانین اور مغربی- صیہونی ضوابط سے استوار کر لیا ہے۔ برسوں پہلے بھی داوود اوغلو نے اپنی پارٹی کی داخلی نشست میں ترکی میں سیاسی میدان میں طاقتور بننے کی وجہ، صیہونی حکومت اور امریکا اور مغرب میں صیہونی لابی سے نزیدیک ہونا قرار دیا تھا اور خود انھوں نے ہی اس کام کی ذمہ داری سنبھالی۔ وہ ایک اسی اسلامی رجحان رکھنے والی پارٹی تھی جس نے ترکی میں بر سراقتدار آنے کے لئے نہ صرف مغرب کی خوشنودی حاصل کی بلکہ اس نے فوجیوں کو ان کی روایتی جگہ پر کرنے اور طاقتوں کے محور کو تبدیل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔
احمد داوود اوغلو کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا سب سے اچھا دوست اور تابع فرمان سمجھا جاتا تھا لیکن پارٹی کی سربراہی کے عہدے سے ان کا علیحدہ ہو جانا اس بات کی واضح علامت ہے کہاب اردوغان ان کے بارے میں اس طرح کے خیالات نہیں رکھتے۔ اردوغان کی سیاسی تاریخ ایک شہنشاہ جیسی رہی ہے جو کسی بھی صورت میں اپنے مخالفین کو پسند نہیں کرتا۔ داوود اوغلو نے پچھلے چھے مہینے کے دوران صدر اردوغان کو ایک آمر اور شہنشاہ کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا۔ یورپ سے ہونے والے سمجھوتے اور یورپی ملکوں کے ساتھ ویزے کے خاتمے کے معاہدے کے بعد اردوغان کو، احمد داوود اوغلو کی عوامی مقبولیت کی طرف سے دھڑکا پیدا ہو گيا تھا۔ اسی طرح وہ داوود اوغلو پر یورپ والوں کے بےتحاشا اعتماد سے بھی تشویش میں تھے۔ یہ اعتماد اس طرح کا تھا کہ یورپ والے بارہا یہ بات کہتے تھے کہ انھیں اوغلو پر بھروسہ ہے لیکن اردوغان پر ان کے اعتراضات اپنی جگہ قائم ہیں۔ اردوغان چاہتے تھے کہ وہ ہر میدان میں شہنشاہ رہیں، یہاں تک کہ رزرو بینک بھی ان کے تابع احکام تھا لیکن داوود اوغلو اس کے خلاف تھے اور رزرو بینک کو مالی خود مختاری دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بہرحال اب داوود اوغلو کے ہٹ جانے کے بعد ترکی میں سیاسی میدان میں کشیدگي بڑھ جائے گی اور ایسے میں کیا اردوغان اپنی شہنشاہیت قائم رکھ سکیں گے؟