الوقت - اسلامی تعاون تنظیم او آئي سی کو ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں ایران اور دیگر اسلامی ممالک اپنے مسائل اور مشکلات پیش کر سکیں لیکن اس تنظیم کا کردار اس کے برخلاف نظر آتا ہے۔
جمعے کو ختم ہونے والے اس کے سربراہی اجلاس میں جو اختتامی بیان جاری کیا گيا اس میں ایران اور حزب اللہ لبنان کے خلاف کچھ شقیں شامل تھیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ شقیں، ایک دو دن میں تیار نہیں ہوئيں بلکہ یہ ایک طویل عمل ہے جو ماہرین، وزراء اور پھر سربراہان مملکت کی سطح پر زیر غور آيا اور پھر اجلاس کے آخری سیشن میں پیش کیا گيا۔ اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس استنبول میں ختم ہو گیا۔ ترک صدر نے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس کے فیصلوں سے ترقی، انصاف اور امن کی امیدیں پیدا ہوں گی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں فرقہ واریت اور گروہ بندیوں پر مبنی سیاست کی شدید مخالفت اور شام، بحرین، کویت اور یمن میں حزب اللہ کی سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایران عدم مداخلت کی بنیاد پر پڑوسیوں سے تعلقات قائم کرے جبکہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حل پر زور دیا گیا۔ ایران نے اس بیان پر اعتراض کرتے ہوئے اختتامی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ استنبول سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت منعقد ہوا جب کئی برادر اسلامی ملکوں میں اختلافات اور کشیدگی کی فضا موجود ہے۔ یہ اجلاس اگرچہ مسلم امہ میں اتحاد و یکجہتی اور تعاون کے نعرے کے تحت منعقد ہوا تھا اسلامی ملکوں کے درمیان اختلافات ختم کرانے اور تعلقات اور معاملات کو صحیح رخ پر ڈالنے کا ایک بڑا اچھا اور سنہری موقع تھا جسے افسوس گنوا دیا گیا کہ اجلاس کے اعلامیہ سے امہ میں انتشار کی صورت نظر آ رہی ہے۔ او آئی سی اجلاس کے بعد ترکی اور پاکستان جیسے ممالک کو ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی کم کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے.
عالم اسلام کے بے شمار مسائل ہیں اور جمہوریت کا فقدان عرب دنیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ تہران اور ریاض کی کشیدگي نے بھی عالم اسلام کو متاثر کر رکھا ہے۔ سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ملکوں پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ اپنے بعض دو طرفہ مسائل کو مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے حل کرنے کے بجائے انھیں اس قسم کے اجلاسوں میں پیش کرتے ہیں تاکہ بعض ممالک کو اپنے ساتھ ملا سکیں۔ یہ رویہ نہ صرف یہ کہ مسائل کو حل نہیں کر سکتا بلکہ اس سے مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ استنبول میں او آئي سی کے سربراہی اجلاس کا تلخ تجربہ، ایسا موضوع ہے جس پر جذباتی انداز میں نہیں بلکہ علاقائی سفارتکاری کے تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں صیہونیوں کے اثر و رسوخ کو روکا اور اسلامی ممالک اور مسلم امت کے درمیان اختلافات اور تنازعات کا سد باب کیا جا سکے۔