الوقت - ایک مسلم معلمہ نے جرمن دارالحکومت کے اسکولوں میں اسکارف پر پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔
مسلم معلمہ نے پرائمری ٹیچر کے طور پر اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد جرمن دارالحکومت برلن کے ایک اسکول میں ملازمت کے لئے درخواست دی۔
انٹرویو میں متعدد سوالات کئے گئے جن کا مسلم معلمہ نے جواب دیا ۔ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ وہ کلاس میں پڑھاتے وقت اپنا اسکارف اتارنے کے بارے میں بھی سوچ سکتی ہے؟ معلمہ کا جواب نفی میں تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد جواب ملا کہ اسے ملازمت دینا فی الحال ممکن نہیں ہے۔ اس معلمہ نے برلن لیبر کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ اس کے اسکارف کی وجہ سے اس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔
معلمہ کی خاتون وکیل مریم ہاشمی کے مطابق میری مؤکلہ کو اس کی پیشہ ورانہ قابلیت اور مہارت کی بنیاد پر مسترد نہیں کیا گیا بلکہ اس کے اسکارف اتارنے سے انکار پر ایسا کیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیوں قابل اور تربیت یافتہ افراد کو ملازمت نہیں دی جا رہی ہے؟ پہلے جرمن صوبوں میں معلمات کے اسکارف پر پابندی تھی لیکن 2015 میں جرمنی کی وفاقی عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ معلمات کے اسکارف پر اسی صورت میں پابندی عائد کی جا سکتی ہے جب اس سے اسکول کا نظم و نسق متاثر ہو۔
اس کے برعکس برلن میں 10 سال پرانے اس قانون کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے تحت سرکاری اہلکار خواتین (مثلا معلمات، پولیس افسران اور ججوں) کے لئے کام کے دوران اسکارف استعمال کرنا منع ہے۔ خاتون وکیل مریم ہاشمی کے مطابق مسلم خواتین ہی اس قانون کا نشانہ بنتی ہیں۔
3 سال پہلے مریم ہاشمی نے ایک ڈینٹسٹ کے یہاں معاون کے طور پر کام کرنے کی خواہشمند یک مسلم خاتون کو زر تلافی دلوایا؛ تھا جسے اسکارف ہی کی وجہ سے کام پر نہیں رکھا گیا تھا۔ ہاشمی کے مطابق بہت سی مسلم خواتین کو اسکارف کی وجہ سے ملازمت نہیں مل پائی۔