الوقت - مصر میں جہاں ایک طرف سعودی فرمانروا شاہ سلمان کا والہانہ استقبال ہوا اور مختلف موضوعات بالخصوص سرمایہ کاری پر گفتگو اور متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے وہیں دوسری جانب مصری عوام میں شدید غم و غصہ دیکھنے کو ملا اور مختلف شہروں میں شدید مظاہرے جاری ہوئے جس کے دوران کئی مظاہرین گرفتار بھی ہوئے۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے سکیورٹی فورس نے لاٹھی چارج بھی کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مصر نے جو سعودی عرب کے ساتھ معاہدے کئے ہیں اس کے تحت دو جزیرے تیران اور صنافیر مصر کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ البتہ سعودی فرمانروا نے اس بات کو کئی مرتبہ دہرایا کہ مصر کے ساتھ معاہدہ کرنے کا مقصد، مصر میں سرمایہ کاری ہے لیکن مصری عوام اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہں ہے چونکہ وہ جانتے ہیں یہ ایک دھوکہ ہے۔ پیٹرو ڈالر کے مقابلے میں سعودی عرب کو ملک کے کچھ حصے کو فروخت کرنے کا عبد الفتاح السیسی کے فیصلے سے عوام غم و غصے میں ہیں۔
مصری عوام اور دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ سعودی عرب وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے کیونکہ حال ہی میں مصری حکومت کی جانب سے یہ بیان آیا تھا کہ تیران اور صنافیر یہ دونوں جزیرے سعودی کی ملکیت ہیں اور اسی سب مصری عوام میں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔
مصری حکومت کے اس بیان کے بعد کہ جس میں ان دونوں جزیروں کو سعودی عرب کی سرحد کے اندر دکھایا گیا ہے، مصری حکومت کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی اسے بالکل بھی امید نہں تھی کیوں کہ اس مخالفت میں خود السیسی کے حامی بھی شامل ہیں۔
قاھرہ یونیورسٹی میں علوم سیاست کے پروفیسر مصری حسن نافع نے روزنامہ السفیر میں مقالہ لکھا کہ (( میرے خیال میں اس بات کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے کہ سعودی فرمانروا کا دورہ مصر کن اھدف اور مقاصد کے لئے تھا۔ البتہ یہ بات واضع ہے کہ مصر کی اقتصادی صورتحال ٹھیک نہیں ہے اور اسی کے مد نظر مصر کو سعودی عرب کی طرف مائل ہونا پڑ سکتا ہے اور دوسری جانب خود سعودی عرب بھی کچھ داخلی اور بیرونی مسائل میں گرفتار ہے جبکہ میری نظر میں دونون ملکوں کی مشکلات کا واحد راہ حل، خود ملک کے داخلی مسائل سے وابستہ ہے۔
وہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہے کہ صنافیر اور تیران یہ دونوں جزیرے مصر کے ہیں لیکن کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے بعد مصر کے لئے ان کی اہمیت کم ہو گئی ہے اور بعید نہیں ہے کہ حکومت مصر انعامات کے مقابلے میں اس پر اپنی مالکیت کا دعوی کی چھوڑ دے جبکہ اس طرح کی کسی بھی کاروائی سے پہلے اسے اس تجویز کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا ہوگا۔
یہ صحیح ہے کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کا جامعۃ الازہر میں بھی بہت شاندار استقبال کیا گیا اور ان کی ملاقات پوپ تواضروس سے بھی رہی، اور انہے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے ساتھ ساتھ مصر کے اعلی نشان سے بھی نوازا گیا۔ شاہ سلمان نے مصری پارلمنیٹ میں تقریر بھی کی لیکن اس کا مطلب یہ نہں ہے کہ مصر اپنے دونوں جزیرے تیران و صنافیر کو سعودی عرب کے حوالے کردے۔
یاد رہے مصر میں یہ مظاہرے اس وقت سے شروع ہوئے جب سے مصری حکومت کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ یہ دونوں جزیرے سعودی عرب کی ملکیت ہیں جبکہ تمام قدیم دستاویزات اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ یہ دونوں جزیرہ مصر کی ملکیت ہیں۔ اس بات کے مد نظر پورے مصر میں وسیع پیمانے پر مظاہرے کئے گئے، مصری عوام نے تحریر اسکوائر پر ہونے والے وسیع مظاہروں میں بڑی تعداد میں شرکت کی جس میں کئی مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔
مصر کے صدارتی عہدے کے سابق امیدوار اور قانون داں خالد علی السفیر اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ (( جس طرح سے اس وقت کی برسر اقتدار حکومت ان دونوں جزیروں کو سعودی عرب کی ملکیت قرار دے رہی اور اگر یہ صحیح ہے تو پھر اس سے پہلے والی حکومتوں نے یہ کام کیوں نہں کیا))۔ وہ کہتے ہیں کہ مصری حکومت اتنی آسانی سے ان دونوں جزیروں کو سعودی عرب کے سپرد نہں کر سکتی کیونکہ قانون اسکی اجازت نہں دیتا ہے اور ایسا کرنے کے لئے اسے پہلے پارلیمنٹ سے اجازت لینی ہوگی۔
مصری عوام خادم الحرمین کا مذاق اڑاتے ہوے کہتے ہیں نہ خادم الحرمین کی عمر اتنی طولانی ہے اور نہ ہی ان کا خزانہ قارون کے خزانے کی طرح ہے لہذا مصری حکومت کو چاہیے کہ اس کا خیال رکھے اور ملک سے خیانت نہ کرے اور پارلیمنٹ کے ارکان کو بھی چاہیے کہ ایسا نہ ہونے دیں اور اپنے وظیفے پرصحیح طریقے عمل کریں۔
6000 سال قدیمی ملک ایک چھوٹے سے قبیلے یا ملک کے سامنے جسے وجود میں آئے ابھی کچھ عرصہ ہی ہوا ہے، کیسے سر تسلیم خم کر سکتا ہے۔
مصری عوام اور سوشل میڈیا میں مصر کے سابق صدر جمال عبدالناصر کی اس تقریر کا کافی چرچا ہے جس میں انھوں نے تاکید کی تھی کہ تیران اور صنافیر یہ دونوں جزیرے مصر کے ہیں۔ جمال عبدالناصر کے بقول یہ دونوں جزیرے ہمیشہ سے مصری حکومت کی ملکیت تھے اور رہے لہذا اسے کوئی بھی طاقت مصر سے چھین نہں سکتی چاہے وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو اور اگر یہ کام مصر کی برسر اقتدار حکومت کرتی ہے تو اسے بھی ملک کا خائن اور غدار سمجھا جائے گا۔