الوقت - جمعرات کو غزہ پٹی کی واحد بین الاقوامی گزرگاہ کی بندش کے 500 روز مکمل ہوگئے ہیں۔
مصر میں 3 جولائی 2013 کو ملک کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد نئی مصری فوجی حکومت نے فلسطینی عوام کو بھی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جس سے فلسطین کا علاقہ غزہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اس کی وجہ غزہ کی واحد بین الاقوامی گزرگاہ کی بندش ہے، اسے مصری حکومت نے گزشتہ 500 دنوں سے بند کیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق، جمعرات کو غزہ پٹی میں صیہونی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ ناکہ بندی کے خلاف سرگرم کمیٹی کے کوآرڈینیٹر جنرل علاء البطہ نے بتایا کہ غزہ کی واحد بین الاقوامی گزرگاہ 500 دنوں سے بند ہے۔ مصری حکومت کی جانب سے متعدد بار یقین دہانیوں اور وعدہوں کے باوجود گزرگاہ نہیں کھولی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ غزہ کی واحد بین الاقوامی گزرگاہ کی بندش سے نظام زندگی متاثر ہوا ہے۔ تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ غزہ پٹی میں ایسے 4 ہزار 500 مریض بھی ہیں جن کا مقامی سطح پر علاج ممکن نہیں ہے اور ان کے پاس بیرون ملک جانے کے لئے بھی کوئي راستہ نہیں ہے۔ اس طرح ساڑھے 4 ہزار فلسطینی مریض اپنی جان دینے پر مجبور ہیں۔
علاء البطہ نے بتایا کہ مصری حکام کی جانب سے کئی ماہ کے تعطل کے بعد ہنگامی حالات میں جند روز یا چند گھنٹوں کے لئے رفح گزرگاہ کھولی جاتی ہے مگر اس دوران بھی غزہ کے عام شہریوں کو بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ 2014 کے دوران صرف 31 دن رفح گزرگاہ وقف وقفے سے کھولی گئی جن میں سے 8 دن صرف باہر سے غزہ آنے والے فلسطینیوں کے لئے گزرگاہ کھولی گئی تھی۔ اس کے علاوہ 4 دن غزہ کے حجاج کرام کے بیرون ملک جانے کے لئے رفح گزرگاہ کھولی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ رفح گزرگاہ کے بند ہونے سے غزہ پٹی میں خوراک کے ساتھ ساتھ ادویات کی بھی شدید قلت ہے۔ بیرون ملک سے آنے والی امداد بھی بند ہوچکی ہے حالانکہ غزہ پٹی کے 80 فیصد شہری غیر ملکی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ گزرگاہ کی بندش کے نتیجے میں غزہ پٹی میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے کیونکہ شہریوں کے لئے روزگار کی سہولتیں ختم ہوچکی ہیں۔ غزہ پٹی میں غربت کی شرح 40 فیصد جبکہ بے روزگاری کی شرح 45 سے 60 فیصد کے درمیان ہے۔