الوقت- امریکہ میں سرمایہ داروں کی لابی کے ہاتھوں ملکی رائے عامہ کو کنٹرول کرنا کوئي نئي بات نہیں ہے۔ امریکہ کے کروڑپتی اور ارب پتی خاندانوں نے ہمیشہ سیاسی گروہوں اور پارٹیوں کو خوب خوب نوازا ہےاور میڈیا بھی ان ہی کے کنٹرول میں ہے جس کے سہارے یہ ارب پتی خاندان امریکہ میں ہر قسم کے انتحابات پر اپنی چھاپ چھوڑتے ہیں اور اپنے مفادات کے لئے اپنے مھروں کی مدد کرتےہیں تا کہ سیاسی لحاظ سے داخلی اور عالمی سطح پر فیصلے کرنے والے ان کے مفادات کو نظر انداز نہ کرسکیں۔ البتہ آج کل ایک نئي بات سامنے آئي ہے امریکہ کے سیاسی سین پر سعودی لابی معرض وجود میں آچکی ہے جو اپنے خاص اھداف کی حامل ہے۔
ارض وحی پرمسلط ابن سعود کے خاندان نے علاقے میں اپنی مہم جوئيوں کے سہارے ارض مقدس پر اپنی غاصبانہ بادشاہت کو جاری رکھنے کےلئے امریکہ سے مزید ضمانتیں لینے کی کوشش کی ہے۔ آل سعود کا نیا بادشاہ جسے اپنے انتہا پسندانہ وہابی افکار ونظریات کی بنا پر سابق بادشاہ کی نسبت امریکیوں کی کم حمایت حاصل ہے، اور امریکہ میں اس کے دوست بھی بہت کم ہیں اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ بندر بن سلطان جیسے افراد کے سعودی پالیسی ساز اداروں سے نکالے جانے کی بنا پر جو خلا آگيا ہے اس کو پر کرسکے۔ آل سعود کے بادشاہ کو اب یہ احساس ہوچکا ہے کہ امریکہ میں آل سعود کا بھرم رکھنے والے مراکز کو دوبارہ متحرک اور فعال کرنا ضروری ہے۔
آل سعود نے علاقے میں جنگيں چھیڑ رکھی ہیں اور بھرپور طرح سے دہشتگردی کی حمایت کررہی ہے اس سے اس کی ساکھ خراب ہوئي ہے لھذا امریکی حکام کی مدد سے امریکہ میں داخلی سطح پر اپنی ساکھ سدھار نے کی کوشش کررہی ہے تا کہ امریکہ کی آئںدہ نسلوں کے نزدیک اس کی مثبت تصویر بنی رہے۔ آل سعود نے اسی غرض سے سعودی امریکی تعلقات کمیٹی تشکیل دی ہے جو امریکہ میں آل سعود کے کريھ چہرے پر ملمع چڑھائے گي۔ آل سعود نے اس پروجیکٹ پر گذشتہ سال کے نصف دوم سے کام کرنا شروع کیا ہے اور اس کا ھدف امریکی عوام کو آل سعود کے تعلق سے الو بنانا ہے۔ البتہ یہ بھی کہا گيا ہے کہ یہ کمیٹی عرب ملکوں کے بارے میں بھی امریکی عوام کو آگاہ کرے گي۔
اس مسئلے سے پہلی بار سلمان الانصاری نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے پردہ اٹھایا تھا۔ سلمان الانصاری سعودی عرب کے ایک سیاسی مبصر اور تجزیہ کار ہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ تعلقات کمیٹی کا شارٹ فام ساپرک بنایا گیا ہے۔ یہ سیاسی کمیٹی آئندہ مارچ سے کام کرنا شروع کرے گي۔
امریکی نیوز چینل سی این این نے کہا ہےکہ سعودی عرب کی یہ لابی صیہونیوں کی لابی کی طرح ہے اور کچھ ہی دنوں میں سعودی عرب بھی اسرائيل کی طرح امریکہ میں اپنے مخصوص پریشر گروپ کا حامل ہوجائے گا۔اس لابی کا مرکزی دفتر واشنگٹن میں ہوگا۔ سعودی مبصرین کا کہنا ہےکہ یہ کمیٹی سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں خاصی تبدیلیاں لے کر آئے گي کیونکہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کمیٹی ہے جو براہ راست طریقے سے سعودی عرب اور امریکہ میں عوامی رابطے قائم کرے گي۔
سعودی عرب کی حکومت نے امریکہ میں داخلی سطح پر تمام اہم سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہونے اور امریکہ کے فیصلہ کرنے والے اداروں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ آل سعود چاہتی ہےکہ وہ ایک بار پھر امریکہ کی پالیسی ساز شخصیتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرلے ۔ آل سعود نے یہ منصوبندی اس وقت سے شروع کی ہے جب وہ سارے جتن کرنے کے بعد بھی امریکہ کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرنے سے باز نہ رکھ سکی اور نہ ہی شام کے خلاف امریکہ کو سخت اقدامات کرنے پر راضی کرسکی۔
صیہونی حکومت کے ساتھ آل سعود کے تعلقات بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں کیا آل سعود نے آیپک یہودی لابی سے متاثر ہوکر امریکہ میں اپنی مخصوص لابی یعنی ساپرک قائم کی ہے؟ اس بارے میں کوئي ٹھوس دلیل نہیں دی جاسکتی البتہ ان دونوں لابیوں کے مالکوں کے برادرانہ تعلقات ان کے معنی خیز تعاون کی عکاسی کرتے ہیں۔
امریکہ میں آل سعود کی نئي لابی کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئي ہيں تاہم یہی کم معلومات سعودی اور یہودی لابی کے درمیان بھرپور شباہتوں پر سے پردہ ہٹانے کے لئے کافی ہیں۔
سعودی عرب کے بعض تجزیہ نگاروں کاکہنا ہےکہ آل سعود کی یہ لابی امریکہ میں صیہونی حکومت کی لابی کا مقابلہ کرنے کےلئے تشکیل دی گئي ہے اور اس کا ایک مقصد یہ ہے کہ امریکہ میں ثقافتی لحاظ سے صیہونی حکومت کی یکہ تازی پر روک لگائي جاسکے۔ مشرق وسطی کے علاقے میں صیہونی حکومت اور آل سعود کے اھداف اور مشترکہ مفادات پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے اھداف کی تکمیل کررہی ہیں اور امریکی حکام کو اپنے منصوبوں کی حمایت کرنے پر راضی کرنا چاہتی ہیں۔
سعودی عرب کا حکمران ٹولہ اپنے نئے اسٹرکچر میں بندر بن سلطان جیسے افراد کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات پہلے بھی پس پردہ انجام پا چکے ہیں جس کی ایک مثال عادل الجبیر کا وزیر خارجہ کی حیثیت سے منصوب ہونا ہے۔ عادل الجبیر وہ پہلا شخص ہے جسے سعودی خاندان سے ہٹ کر کلیدی وزارت دی گئي ہے۔بندر بن سلطان انیس سو تراسی سے دو ہزار پانچ تک امریکہ میں سعودی عرب کےسفیر تھے اور انہیں امریکہ اور آل سعود کے درمیان گہرے تعلقات قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئي تھی۔
سعودی عرب کے تجزیہ نگار سلمان الانصاری نے جو امریکہ میں سکونت پذیر ہیں اور ایسا لگتا ہےکہ وہ ساپرک کی سربراہی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ مارچ کی سولہ تاریخ کو سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کا کمیشن کام کرنا شروع کرے گا۔ سلمان الانصاری وہ شخص ہے جس نے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش اور ایران کے تعلقات کی مضحکہ خیز بات کی ہے۔ ان کے عجیب و غریب نظریات اور ان کی معمولی سی شخصیت اس بات کا سبب نہيں بن سکتی کہ انہیں امریکہ اورسعودی عرب کے تعلقات میں بہتری لانے کی ذمہ داری سونپی جاسکے۔
ساپرک کا پروگرام
ایسا نہیں لگتا کہ سعودی حکام ساپرک کے مینجمینٹ کے لئے یہودی لابی آيپک کی نقل کرنے کے علاوہ اپنی طرف سے جدت عمل کا ثبوت دے سکیں گے ۔ آل سعود نے ہمیشہ پیسے کے حربے سے کام نکالا ہے اور اس مرتبہ بھی پٹرو ڈالروں سے اپنے مد نظر امریکہ کی شخصیتوں کو خریدنے کا کام کرے گي۔ امریکہ کے سابق ری پبلیکن سنیٹر نارم کولمن جنہوں نے سعودی عرب اور آل سعود کے انتہا پسندانہ اور نسل پرستانہ اقدامات کے خلاف بیان جاری کرکے ساری دنیا میں نشر کیا تھا انہوں نے دوہزار آٹھ میں انتخابات میں شکست کھانے کے بعد ھوگان لوویز انسٹی ٹیوٹ سے معاہدہ کیا ہے جسے سعودی عرب کی مالی حمایت حاصل ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ، نیٹو کونسل، میڈل ایسٹ پالیسی کونسل، میڈل ایسٹ اکیڈمی جیسے دسیوں اداروں کی طرح ہے جنہيں آل سعود کی طرف سے مالی امداد ملتی ہے۔ یہ امریکی ادارے گرچہ آل سعود کی کاسی لیسی کرتےہیں لیکن خود کو پرائیوٹ انسٹی ٹیوٹ قرار دیتے ہیں۔ کریگ ہولمن سابق سنیٹر کولمن کے موقف میں آنے والی تیز تبدیلی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بڑے افسوس کا مقام ہےکہ امریکہ میں قانون ساز ادارے کا ایک رکن ایک بیرونی ملک کا آلہ کار بن گیا ہے۔
آل سعود آج بھی اسی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ بندر بن سلطان نے واشنگٹن میں امریکی حکمرانوں کو خریدنے کےلئے آل سعود کے خزانے کے منہ کھول دئے تھے اور اب ان کے جانشین عادل الجبیر بھی یہی کام کررہے ہیں، ان کا ھدف امریکہ کے فیصلہ ساز اور پالیسی ساز اداروں سے قریبی تعلقات قائم کرنا ہے۔ آل سعود نے اپنی ساکھ سدھارنے کے لئے امریکہ میں بڑی بڑی میڈیا کمپنیوں جیسے ایدلمن اور بودستا گروپ کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے کئے ہیں۔
بودستا کمپنی نے آل سعود کی مدح سرائي میں قلم فرسائي اور تشہیراتی سرگرمیوں سے بڑھ کر کا کام کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کمپنی نے اسے سونپي گئي ذمہ داری کے مطابق ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کی حمایت شروع کردی ہے۔
امریکی کالم نگار لی وانگ نے اپنے ایک مضمون میں اس حمایت سے پردہ اٹھایا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خيال ہےکہ بودستا کمپنی کی سرگرمیوں سے پتہ چلتا ہے کہ آل سعود چاہتی ہےکہ ہیلیری کلٹن صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوجائيں، اس کےعلاوہ ہیلیری کلنٹن کے ماضی پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہےکہ انہیں آل سعود کی رشوتوں کا مزہ لگ گيا ہے۔ اگرچہ کلنٹن انسٹی ٹیوٹ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اپنے رقیبوں کا منہ بند کرنے کے لئے سعودی عرب سے پیسے لینا بند کردیا ہے اور انہیں آل سعود کے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن وال اسٹریٹ جرنل کے انکشاف کے مطابق ہیلیری کلنٹن نے سعودی عرب سے دس سے پچيس ملین ڈالر لئے ہیں۔
اگرچہ سعودی عرب کی لابی بڑی گہرائي سے امریکہ کی داخلی سطح پر وسیع پیمانے پر اثر انداز ہوسکتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ آج بھی آل سعود کے لئے سب سے کارگر حربہ پیسہ ہی ہے۔