الوقت- صیہونی حکومت کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کے کھل کر سامنے آنے کےبعد بعض عرب ملکوں نے حزب اللہ کو دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کی سازش ایک بار پھر شروع کردی ہے۔
آل سعود کے میڈیا نے خبر دی ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل نے حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد گروہ میں شامل کردیا ہے۔ خلیج فارس کے چھے عرب ملکوں کی کونسل کے سیکریٹری جنرل عبداللطیف بن راشد الزیانی نے دعوی کیا ہے کہ اس کونسل کے ملکوں نے یہ فیصلہ اس وجہ سے کیا ہے کہ حزب للہ لبنان نے اپنے مخاصمانہ اقدامات جاری رکھے ہیں اور ان ملکوں کے جوانوں کو دہشتگردی، ہتھیار اور دھماکہ خیز مادوں کی اسمگلنگ، فتنہ انگيزی اور افراتقری مچانے پر اکسانے کے لئے اپنی صفوں میں شامل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ حزب اللہ کے یہ سارے اقدامات خلیج فارس تعاون کونسل کے اقتدار اعلی، سلامتی اور امن و استحکام کے کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے ملکون کی نظر میں ان کونسل کے ملکوں میں حزب اللہ کے اقدامات نیز شام یمن اور عراق میں اس کے تحریک آمیز اور دہشتگردانہ اقدامات انسانی و اخلاقی اقدار نیز عالمی قوانین سے منافات رکھتے ہیں اور عربوں کی قومی سکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں۔
خلیج فارس تعاون کونسل کے سکریٹری جنرل نے یہ بھی دعوی کیا کہ چونکہ یہ دہشتگردانہ اقدامات جاری ہیں لھذا اس کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ حزب اللہ کو ایک دہشتگرد تنظیم قراردے اور بہت جلد اس فیصلے پر عمل درامد کے لئے اقدامات شروع کئے جائيں گے اور یہ اقدامات دہشتگردی کے خلاف خصوصی قوانین اور دیگر عالمی قوانین کے مطابق ہونگے۔
واضح رہے خلیج فارس تعاون کونسل کا یہ فیصلہ ایسے عالم میں سامنے آیا ہے کہ اس کونسل نے کچھ ہی دنوں قبل لبنان کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنے نیز لبنان کی فوج اور سکیوریٹی فورسز کو لیس کرنے کےلئے مالی حمایت منقطع کرنے کےسعودی عرب کے فیصلے کی بالاتفاق حمایت کی تھی۔ ان ملکوں نے حکومت لبنان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے مواقف اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرے کیونکہ ان کے دعووں کے بقول حکومت لبنان کے مفادات بیرونی حکومتوں کے مفادات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
حزب اللہ لبنان پر یہ الزامات ایسے حالات میں لگائے جارہے ہیں کہ حزب اللہ نے نہ صرف صیہونی جارحیت کے مقابل لبنان کے دفاع بلکہ تکفیری دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کےلئے ہتھیار اٹھائے ہیں۔
سعودی عرب لبنان سے کیا چاہتا ہے؟
لبنان کے روزنامے الاخبار نے لکھا ہے کہ سعودی عرب کے حالیہ ظالمانہ اقدامات ان سب کے لئے جو سعودی عرب کی کارکردگي پر نظر رکھتے ہیں یہ سوال پیش کررہے ہیں کہ سعودی عرب آخر لبنان سے چاہتا کیا ہے؟
اس سے اہم ایک اور سوال یہ ہے کہ جب لبنان کی کابینہ نے اپنا بیان جاری کردیا اور وزیر اعظم تمام سلام نے حالات کو بہتر بنانے کےلئے ریاض کے دورے کا مطالبہ کیا تو کس وجہ سے آل سعود نے اس دورے کی مخالفت کی؟
کیا ریاض حکومت لبنان کی کابینہ کے اعلان کے بعد اسکے خاتمے کا منتظر ہے؟ یا یہ کہ بیروت حکومت سے چاہتا ہے کہ وہ واضح موقف اپنا کر حزب اللہ سے دو ٹوک الفاظ میں شام سے نکلنے کو کہے اور وہ بھی سعودی عرب کے حمایت یافتہ تکفیری دہشتگرد گروہوں کے خلاف شام کی فوج اور حزب اللہ کی پے درپئے کامیابیوں کےبعد؟
حزب اللہ سے ریاض کی نفرت
یہ سارا کھیل ایسے عالم میں جاری ہے کہ سعودی عرب کی مافیائي وہابی حکومت حزب اللہ سے نفرت کرتی ہے اور یہ اسکی دلی آرزو تھی کہ دوہزار چھے میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں حزب اللہ کا خاتمہ ہوجاتا ۔
سعودی عرب کی حکومت کیا لبنانی حکومت سے یہ توقع رکھتی ہے کہ تہران میں سعودی عرب کے سفارتخانے پر بعض مشکوک افراد کے حملے کے بعد خلیج فارس تعاون کونسل کے بعض ملکوں کی طرح تہران سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیتی؟
لبنان کےخلاف سعودی عرب کا اعلان جنگ
سعودی عرب کا اپنے شہریوں سے یہ کہنا کہ فورا لبنان سے روانہ ہوجائيں اور خلیج فارس تعاون کونسل کے دیگر ملکوں پر یہ موقف اپنانے پر دباؤ ڈالنا دراصل لبنان کے خلاف اقتصادی اعتبار سے اعلان جنگ ہے۔ لیکن کیا سعودی عرب یمن عراق اور شام میں شرمناک ناکامیوں اور ہزیمتوں کا تدارک کرنے کےلئے لبنان سے انتقام لے رہا ہے، سیاسی مبصرین کا خيال یہی ہے۔ امید کی جاتی ہےکہ لبنان کے وزیر خارجہ جبران باسیل بعض حلقوں کی جانب سے سعودی دشمن کے مطالبات تسلیم کرنے کے اصرار کو نظر انداز کرتے رہیں گے اور اپنی قوم کو سربلند رکھیں گے۔