افغانستان
دو ہزار چودہ افغانستان میں قومی اتحاد کی حکومت تشکیل دینے کے لئے کافی پرنشیب و فراز سال رہا ہے لیکن آخر کار ایسی تدبیریں اختیار کی گئيں جس کی اساس پر اشرف غنی صدر بن گئے اور عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکیٹو کا عھدہ سپرد کردیا گيا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایران کے ساتھ قومی اتحاد کی حکومت کے تعلقات شروع سے کیسے رہے ہیں؟
ایران کے بارے میں قومی اتحاد کی حکومت کی نظر
ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں قومی اتحاد کی حکومت کی خارجہ پالیسی حامد کرزئي کی حکومت کی خارجہ پالیسی سے الگ ہے۔ کابل کی خارجہ پالیسی میں اس وقت کئي حلقے ہیں جن میں اس کے ہمسایہ ممالک، عالم اسلام، یورپ، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور ایشین ممالک اور عالمی ادارے شامل ہیں۔ افغانستان کی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کو شکل دینے کےلئے پاکستان سے قربت اختیار کرنے کی کوشش کی، ہمسایہ ملکوں کے ساتھ براہ راست تعاون اور تعلقات میں بہتری لانے کے اقدامات کئے نیز اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات میں استحکام لانے اور دنیا کے اقتدار و ثروت و سائنس وٹکنالوجی کے مراکز کے ساتھ قربت اختیار کی ہے۔ اس درمیاں اگر افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت کی کارکردگي پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہرچند اشرف غنی نے اقتدار میں آنے کےبعد اس بات پر تاکید کی تھی کہ کابل کی خارجہ پالیسی علاقائي ملکوں کے ساتھ تعاون کرنے پر استوار ہے اور قومی اتحاد کی حکومت نے اپنی نئي خارجہ پالیسی کے ایجنڈے میں علاقے کے ملکوں کے ساتھ وسیع تعاون کو شامل کرلیا ہے۔ البتہ افغانستان نے یہ پالیسیاں اس وقت اپنائي تھیں جب اشرف غنی اپنے سے پہلے کے صدر کی پالیسیوں پر گامزن تھے اور انہوں نے امریکہ کے ساتھ سیکورٹی معاہدے پر دستخط نہیں کئے تھے اورنہ ہی وہ سال میں تین مرتبہ ریاض کے چکر کاٹ کے آئے تھے اور متنازعہ موقف اپنا کر یمن پر آل سعود کے حملے کی حمایت کی تھی۔ اشرف غنی نے ایک اور مرحلے میں امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان کو سیکورٹی میدان میں ایران پر ترجیح دی تھی لیکن قومی اتحاد کی حکومت میں صرف اشرف غنی کا دھڑا ہی نہیں تھا اسی وجہ سے اس حکومت نے مکمل طرح سے سعودی عرب پر اعتماد نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اس درمیان علاقے میں آںے والی تبدیلیوں جیسے مغرب سے ایران کے تعلقات میں بہتری اور اس پر عائد پابندیوں کے اٹھائے جانے اور ایران کے عالمی اقتصادی منڈی میں دوبارہ واپس آنے کے بعد کابل کو ایران کی طرف مڑ کر آنا پڑا اور اس نے یہ کوشش کی کہ تہران اور ریاض کے درمیان اس طرح سے تعلقات بنائے کہ ان میں کوئي ناراض نہ ہو یا افغانستان پر ایران کے چیلنجز کا اثر نہ پڑے اس کے علاوہ یہ بھی کوشش کی کہ افغانستان پر ایران کے ساتھ امریکہ اور سعودی عرب کی چپقلشوں کا بھی سایہ نہ پڑے۔ واضح رہے افغانستان کو عالمی مالی اور دفاعی امداد کی ضرورت ہے اور وہ سیکورٹی بحال کرکے ملک میں سرمایہ کاری بڑھانے کی کوشش کررہا ہے اسی وجہ سے اس نے ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا یا ہے چنانچہ گذشتہ دیڑھ برس میں اگر دونوں ملکوں کے حکام کے ایک دوسرے کے دوروں پر غور کیا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ ایرانی حکام کے کابل کے دوروں کے علاوہ افغان صدر اشرف غنی اور چيف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ کے تہران کے دورے بھی نہایت اہمیت کےحامل ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیاں سکیورٹی اور سیاسی تعاون
ہرچںد ایران خارچہ پالیسی کے میدان میں امریکہ افغانستان کے سیکورٹی معاہدے کو مثبت نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ علاقے میں امن وامان ہمسایہ ملکوں کے درمیان تعاون پر استوار ہونا چاہیے۔افغانستان میں نیٹو اور مغربی ملکوں کے فوجیوں کے انخلاء کے بعد اور سکیورٹی مسائل میں کمی آنے کے بعد اب منشیات، پانی کے مسائل، پناہ گزینوں کے مسائل، داعشی دہشتگردی ایران اور افغانستان کے درمیاں نہایت اہم مسائل قراردئے جاسکتے ہیں اس کے علاوہ افغانستان میں داعش کی موجودگي سے ایران اور افغانستان کا سیکورٹی تعاون ناگزیر بن گيا ہے۔ اس کے علاوہ ایران انسداد منشیات کے شعبے میں وسیع تجربوں کا حامل ہے اور منشیات کی اسمگلنگ کا ایک بڑا ٹرانزیٹ روٹ ہے اسی کے ساتھ ساتھ ان دونوں ملکوں کے درمیان ساڑھے نوسو کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحدیں بھی ہیں جن سے ایران کو متعدد سیاسی اور سکیورٹی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ان ہی مسائل کو حل کرنے کی وجہ سے دونوں ملکوں نے تعاون کرنا شروع کیا ہے۔
ہنوز ایران اور افغانستان کے درمیان بڑی طاقتوں کی فوجی موجودگي اور سرحدی دریاؤں بالخصوص ہیر مند اور ھریرود کے پانی کی تقسیم پر مسائل موجود ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیاں اسٹراٹیجیک ضرورتوں نے دونوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنے پرمجبور کردیا ہے اور افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت نے بھی علاقائي اتحاد پر کافی توجہ دی ہے۔ اس کے علاوہ ایران ایک ایسا ملک ہے جس میں ا فغان پناہ گزینوں کی سب سے زیادہ تعداد زںدگي گذار رہی ہے۔ اسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے حکام نے گذشتہ برس ایک دوسرے کے ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ یا درہے افغان پناہ گزینوں کے مسئلے نے متعدد سماجی اور سکیورٹی مسائل کو جنم دیا ہے چنانچہ تہران نے افغان مہاجرین کے مسئلے پر خاص توجہ دی ہے اور اس سلسلے میں افغان حکومت کے بعض مطالبات پورے کئے ہیں۔
حکومت کابل نے خارجہ پالیسی کے شعبے میں بھی کوشش کی ہےکہ ایران کے تعلق سے مغربی حکومتوں اور اقوام متحدہ کے نظریات میں آئي تبدیلی نیز ایران کے سکیورٹی ملاحظات اور جیو پالیٹیکل پوزیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے ایران کے خلاف اتحاد میں شامل ہونے کے سعودی عرب کے مطالبات کو سرے سے نظر انداز کیا ہے اور اب سکیورٹی مسائل کو سرکرکے اقتصادی مسائل حل کرنے کی کوشش شروع کررہی ہے اور اس نے مغربی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو محفوظ رکھتے ہوئے ایران اور شنگھائي تعاون تنظیم کے ساتھ تعاون قائم رکھنے پر کم و بیش توجہ کی ہے۔
اس وقت ایران ان ملکوں میں شامل ہے جن کی مصنوعات بڑے پیمانے پر افغانستان میں فروخت اور استعمال ہوتی ہیں لیکن دونوں ملکوں کا اقتصادی تعاون ان کی توانائيوں کے مطابق نہیں ہے لھذا دونوں ممالک اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اقتصادی تعلقات میں فروغ لانے کو ترجیح دی جائے۔ اس سلسلے میں افغانستان کو عالمی تجارتی تنظیم، دونوں ملکوں کی تاجر برادری کے لئے ویزا کی پابندیاں ختم کرنا، ایران سے افغانستان کی درآمدات کا بڑا حصہ سپلائي کیا جانا، افغانستان کے لئے ایران کی اقتصادی امداد کا جاری رہنا، عالمی منڈی تک رسائي حاصل کرنے کےلئے افغانستان کی جانب سے ایران کی چابہار بندرگاہ کے استعمال کی کوششیں، چابہاربندرگاہ میں ایران ہندوستان اور افغانستان کی مشترکہ سرگرمیاں، مصنوعات اور اشیاء ضرورت حاصل کرنے کےلئے پاکستان سے وابستگي میں کمی لانا ایسے امور ہیں جن سے افغانستان کو بے حد مدد مل سکتی ہے اور ان کے نتیجے میں کابل اور تہران باہمی اقتصادی تعاون بڑھا سکتے ہیں۔