~~الوقت نےباخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ تاہم طالبان کے کچھ مطالبات ہیں،وہ چاہتے ہیں کہ براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کیلیے کچھ اقدامات اٹھائے جائیں جن میں اقوام متحدہ کی سفری ودیگرپابندیوں کی فہرست سے طالبان کے کچھ رہنماؤں کے ناموں کے اخراج کا مطالبہ شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان اپنے بعض قیدی رہنماؤں کی رہائی بھی چاہتے ہیں اور اسی طرح ان کی خواہش ہے کہ امریکاافغانستان سے اپنے فوجی انخلا کے سلسلے میں کسی ’’ٹائم فریم‘‘کا تعین کرے۔
ذرائع کے مطابق ان مطالبات کے حوالے سے افغان حکومت کی جانب سے کسی مثبت ردعمل کی صورت میں براہ راست مذاکرات جلد شروع ہوسکتے ہیں بصورت دیگر اس مقصد کے حصول میں کچھ مزید وقت لگ سکتاہے۔افغان حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات کا پہلا دورگزشتہ سال جولائی میں مری میں ہواتھا اور پاکستان نے ’’سہولت کنندہ‘‘ ملک کے طور پراس بات چیت کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مذاکرات کا دوسرا دور بھی گزشتہ سال جولائی کے آخر میں ہونا تھا تاہم طالبان کے سابق سرغنے ملا عمر کے انتقال کی خبر منظرعام پر آنے کے بعدوہ مذاکراتی دور ملتوی کردیا گیا تھا جو تاحال نہیں ہوسکا۔
ذرائع کے مطابق 4ملکی رابطہ گروپ میں شامل ممالک کی بھرپورکوششوں کے باعث توقع ہے کہ براہ راست مذاکرات جلد شروع ہوجائیں گے۔
تاہم ان مذاکرات کے نتائج کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔