الوقت- سعودی عرب نے جب حجاز کے بزرگ عالم دین آیت اللہ باقر النمر کو پھانسی کی سزا دے کر شہید کیا تو اسلامی دنیا کی طرح ایران میں بھی آل سعود کے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف عوام نے غم م غصے کا اظہار کیا جس پر آل سعود نے عجلت میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلئے۔اس کے بعد دنیا یہ سوچ رہی تھی کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا لیکن ایسی کوئي صورتحال سامنے نہیں آئي بلکہ تیل کی قیمت پینتیس ڈالر فی بیرل سے بھی کم ہوگئی۔ ایسے موقع پر یہ سوال سامنے پیش آیا کہ کیا سیاست اور تیل کا بندھن آخر کار ٹوٹ گيا ہے؟
آج سے پانچ برسوں قبل تک جب تیل کی قیمت ایک سو ڈالر فی بیرل تھی مشرق وسطی میں نئے بحران شروع ہوئے تھے جنکی وجہ سے تیل کی مانگ میں کافی اضافہ ہوا تھا۔ لیکن آج تیل کی قیمت میں گراوٹ کی وجہ امریکہ میں شیل تیل کی پیداوار، سعودی عرب کی پیداوار میں اضافہ اور چین میں تیل کی مانگ میں کمی آنے کے خوف کی وجہ سے ہے۔ یاد رہے سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔
ایران اور سعودی عرب اپنے چیو پالیٹیکل مقاصد کے لئے تیل کی آمدنی پر منحصر ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ خلیج فارس کے ان ملکون میں مخاصمت خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ چيٹم ہاوس میں انرجی کے امور کے ماہر والری مارسل کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں ہے کہ خلیج فارس میں کبھی بھی اس حد تک عدم استحکام آیا ہو۔
اب جب ایران پہر سے پابندیاں ختم ہوگئي ہیں تو ایران تیل کی منڈی میں اپنے حصے کو حاصل کرلے گا ایسے میں کشیدگي کافی بڑھ گئي ہوگي۔ تہران کا کہنا ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں وہ اپنی تیل کی پیداوار میں پانچ لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کرے گا اور تیل کے پیداواری حصے کے بارے میں اسی وقت بات کرے گا جب وہ اپنی کھوئي ہوئي مارکیٹ دوبارہ حاصل کرے گا۔ یہ اقدام سعودی عرب کو چینلنج کرنا ہے۔ یاد رہے سعودی عرب کا استحکام اور علاقائي پوزیشن اسکی تیل آمدنی کی وجہ سے ہے۔ دونوں ممالک روس کے ہمراہ تیل کی قیمت پر ایک دوسرے سے مسابقت میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ممالک تیل کی منڈی میں اپنے حصے کو محفوظ رکھنے اور دیگر رقبا کو کمزور بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
سعودی عرب کے لئے یہ ایک خطرناک تجارت ہے۔ داخلی سطح پر عوام میں بے چینی پھیلنے کےعلاوہ آمدنی میں کمی سے معیار زندگي پر بھی اثر پڑے گا اور اس سے سعودی عرب شام و عراق اور میں دہشتگردوں کے سہارے اپنی نیابتی جنگ جاری نہیں رکھ سکے گا یا کم از کم اس پر برا اثر ضرور پڑےگا۔
مارسل کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا تو سعودی عرب یہ کہنے لگے گا کہ ایران تیل کی آمدنی سے شام، یمن اور عراق کے عوام کا دفاع کررہا ہے۔ اس بات میں کوئي شک نہیں ہے کہ ایران آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ علاقے میں مزید طاقتور ملک کا رول ادا کرے گا اور سعودی عرب کے لئے یہ بے حد تشویش کا سبب ہوگا۔
اگرچہ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہےکہ پابندیوں کے بعد کے دور میں ایران کے تیل کی پیداوار میں اضافے سے تیل کی عالمی منڈی کی صورتحال بدل جائے گي ناروے کی پریکس کمپنی کے ترجمان اندرا اوورلینڈ کا کہنا ہے کہ سنہ دوہزار سولہ میں تیل کی قیمتیں نیچے رہیں گي۔ اندرا اوورلینڈ بیس ملکوں کے سیاسی حالات پر تیل کی برآمدات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اوورلینڈ اس نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ایران ممکن ہے عراق کی مدد سے اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے، وہ کہتے ہیں کہ تیل کی منڈی میں ایک بڑا واقعہ رونما ہوگا اور بہت سے لوگ سوچیں گے کہ یہ ایران کے تیل کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے ہے جبکہ یہ اثرات عراق کے تیل میں کمی کے باعث ہوگي اور اس کے اثرات دنیا کی تیل کی منڈی پر دیکھے جاسکیں گے۔ اس مسئلے سے سعودی عرب کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اسکی نوے فیصد آمدی تیل کی بر آمدات سے ہوتی ہے۔ گذشتہ برس آئي ایم ایف نے یہ تخمینہ لگایا تھا کہ سعودی عرب کو اپنا بجٹ متوازن بنانے کے لئے ایک سو چھے ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت کی ضرورت ہے۔ ایسے ملک جس کی ٹیکسوں سے کوئي آمدنی نہیں ہے اور جو ایندھن پر بھاری سبسیڈی دیتا ہے اور جو بہار عربی کے بعد داخلی سطح پر اپنا استحکام برقرار رکھنے کے لئے سنی ملکوں اور آبادیوں کو اربوں ڈالر دینے پر مجبور ہے اس کے لئے تیل کی قیمتوں میں کمی کسی المیے سے کم نہ ہوگي۔ اگر سعودی عرب کی ڈکٹیٹر بادشاہت میں بے چینی پھیل گئي تو علاقے کا چہرہ بدل جائے گا۔
برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلي گراف نے اس بارے میں لکھا ہے کہ ملک میں سماجی ورفاہی سہولتوں کا بجٹ اس بات کا باعث بنا ہے کہ آل سعود کی قرون وسطی کی وہابی حکومت سخت حالات سے دوچار ہوگئی ہے اور دوسری طرف اس ملک کے مشرقی علاقون میں شیعہ اقلیت کے احتجاج میں بھی اضافہ ہوا ہے اور آل سعود یمن میں اپنی جارحیت سے سے بھی پسپائي اختیار کررہی ہے۔ یہ اخبار لکھتا ہےکہ عدم استحکام کا شکار مشرق وسطی کے بدلتے ہوئے حالات میں آج بھی تیل ہی فیصلہ کن کردار کا حامل ہے۔