الوقت- کیا افغانستان سے امریکی فوجی نکل جائیں گے اور سیکوریٹی کے امور افغان فورسز کے سپرد کردئے جائیں گے یہ وہ سوال ہے جو عرصے سے صحافتی اور افغان امور سے دلچسپی رکھنے والوں کے زہن میں گردش کررہا ہے اسی تناظر میں
جنرل جان کمپبل نے امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کے کمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے زور دے کر کہا ہے کہ امریکہ کے پانچ ہزار پانچ سو فوجیوں کو دوہزار سترہ کے آغاز کےبعد بھی افغانستان میں تعینات رکھنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ فوجی القاعدہ سے مقابلہ کرنے کی غرض سے افغانستان میں رہیں گے۔
امریکی جنرل کے بقول افغان فوج کو ٹریننگ دینے کی ذمہ داری محدود ہوگی اور یہ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ افغاں فوج طالبان کا مقابلہ نہ کرپاے۔ کمپبل کے بقول اگر واشنگٹن یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی فوج کو مضبوط بناتا رہے تو اسے دوہزار سترہ میں پانچ ہزار پانچ سو امریکی فوجیوں کے مشن میں تبدیلی لانی ہوگی۔ افغانستان کے عوام اپنے ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو بحران کے جاری رہنے کا سبب جانتے ہیں اور ان کے انخلاء پر تاکید کرتے ہیں
۔ دوسری طرف افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کے کمانڈر ان چیف نے اس بات کو مسترد نہیں کیا ہے کہ افغانستان کی سیکورٹی کی صورتحال کے پیش نظر دوہزار سولہ میں امریکی اور نٹیو کے فوجیوں کے انخلامیں تاخیر ہوسکتی ہے۔
اس وقت افغانستان میں امریکہ کے نو ہزار آٹھ سو فوجی موجود ہیں۔ واشنگٹن نے گذشتہ مہینے فیصلہ کیا تھا کہ طالبان کی کامیابیوں کے پیش نظر افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے عمل کو موخر کردے۔ ادھر جنرل جان نیکلسن نے جو عنقریب افغانستان میں جنرل کمپبل کی جگہ لینے والے ہیں گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ افغان فوج کو ٹریننگ دینے کے لئے برسوں کی محنت کی ضرورت ہے۔ امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ دوہزار سترہ کے بعد افغانستان میں پانچ ہزار پانچ سو فوجی تعینات رہیں گے۔ یہ ایسے حالات میں ہے کہ امریکہ نے اس سے پہلے کہا تھا کہ دوہزار سترہ کے بعد افغانستان میں صرف ایک ہزار فوجی تعینات رہیں گے۔
جنرل کمپبل نے امریکی حکومت سے سفارش کی ہے کہ گرمیوں سے پہلے ہی افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا پروگرام بنالے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ بات واضح تھی کہ امریکہ افغانستان سے اپنے فوجی نکالنا نہیں چاہتا ہے بلکہ فوجیوں کی تعداد میں کمی کے دعوے کرکے افغانستان پر قبضے کے سلسلے میں داخلی مخالفتوں کو کم کرنا چاہتا تھا۔ امریکہ نے دوہزار ایک میں دہشتگردی سے مقابلے اور طالبان اور القاعدہ کے خاتمے کےبہانے افغانستان پر قبضہ کیا اور امریکہ اور نیٹو کے ایک لاکھ سے زائد فوجی گذشتہ چودہ برسوں میں افغانستان میں تعینات رہے ہیں۔
امریکہ کے افغانستان کے دلدل میں پھنس جانے اور عوام کی مخالف میں شدت آنے کی وجہ سے وائٹ ہاوس نے ایک حربے کے طور پر افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کرکے یہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں اس کا فوجی مشن ختم ہوگیا ہے لیکن چونکہ امریکہ کا ھدف افغانستان میں اپنے مفادات حاصل کرنے منجملہ اس ملک کے معدنیات کو ہڑپنے کے لئے بحران جاری رکھنا تھا لھذا اس نے طالبان کو دوبارہ فعال کر کے اور داعش کو اس ملک میں معرض وجود میں لاکر افغانستان میں اپنے فوجیوں کو واپس لانے اور افغانستان میں اپنے فوجی تعینات رکھنے کا مناسب بہانہ تلاش کرلیا۔ بحران سازی اوربدامنی میں اضافہ کرنا افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو باقی رکھنے کے لئے امریکہ کی اہم ترین چالیں رہی ہیں۔ بعض مغربی ذرایع ابلاغ امریکہ کی ان چالوں کے باوجود اسے امن و سیکورٹی کا محافظ قرار دیتے ہیں۔یہ ایسے حالات میں ہے کہ امریکہ بحران کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے کرافغانستان کو اپنی فوجی چھاونی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تا کہ یہاں سے مرکزی ایشیا اور قفقاز کے لئے دہشتگرد روانہ کرسکے۔
بہر صورت افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی کا جاری رہنا افغانستان کے تعلق سے واشنگٹن کی اسٹراٹیجیک پالیسی ہے۔ امریکی فوجی جرنیل منصوبہ بند طریقے سے مغربی ذرایع ابلاغ کے سہارے افغانستان میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس سے ان کا مقصد امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کی موجودگی کا جواز پیش کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ طالبان کی حمایت کرکے اور مختلف ملکوں اور عالمی حلقوں کی جانب سے اسے تسلیم کروانے کی کوششیں کرکے عملی طور سے افغانستان کو ایسی سمت میں لے جانا چاہتا ہے جس سے طویل مدت تک مغرب کے اھداف اور مفادات پورے ہوتے رہیں۔سامراجی ممالک کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہ جب کسی ملک پر اپنے سامراجی پنجے گاڑھتے ہیں تو جب تک اس ملک کا تمام خون نچوڑ نہیں لیتے اس کو نہیں چھوڑتے دوسری صورت یہی ہوتی ہے کہ سامراجی طاقتوں کو اسطرح مار کر بھگایا جائے کہ ان میں پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بھی جرات نہ ہو۔اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان قوم بیرونی قابضوں کے ساتھ کونسا راستہ اختیار کرتی ہے۔