~~الوقت کی رپورٹ کے مطابق ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں واقع اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور کی مسجد کے دورے کے موقع پر مسلم کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف سیاسی بیان بازی کی امریکی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔
براک اوباما نے کہا کہ نائن الیون حملوں کے بعد اسلام کا غلط تصور پیش کیا گیا، چند لوگوں کی وجہ سے تمام مسلمانوں کو الزام نہیں دیا جاسکتا، اسلام امن کا درس دیتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ گزشتہ سال کیلیفورنیا میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد امریکی مسلمانوں اور مساجد پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔
امریکی صدر نے ریاست اوہائیو کی 13 سالہ لڑکی کے خط کا بھی ذکر کیا،جس میں اس کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ صورتحال سے خوفزدہ ہے.
اوباما کے بالٹی مور کی مسجد کا دورہ کرنے کے بعد وائٹ ہاوس کے ترجمان جاش ارنسٹ نے مسلمانوں کے خلاف ری پبلیکن پارٹی کے رویے کی مذمت کی۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے بارے میں ری پبلیکن پارٹی کا رویہ بدگمانی پرمبنی اور جمہوریت کے اصولوں کےبرخلاف ہے۔ جاش ارنسٹ نے صدر اوباما کے شہر بالٹی مور کی مسجد کا دورہ کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے سے ان کا ھدف یہ پیغام پہنچانا تھا کہ وہ امریکی مسلمانوں اور دیگر ادیان کی یکساں حمایت کرتے ہیں۔ جاش ارنسٹ نے کہا کہ ری پبلکن پارٹی کے بعض سیاسی رہنماؤں کی پالیسیاں امریکہ میں اصول و اقدار کے کمزور ہونے کا سبب ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ صدر اوباما کا بالٹی مور کی مسجد کا دورہ اور اس مسجد میں ان کی تقریر امریکہ میں اسلام و مسلمین کے خلاف جاری مخاصمانہ اقدامات میں اضافہ ہونے پر رد عمل کے طور پر انجام پایا ہے۔ یاد رہے یورپ اور امریکہ میں حالیہ دہشتگردانہ واقعات کے بعد امریکہ میں اسلام مخالف اقدامات میں نمایان اضافہ ہوا ہے۔ تیرہ نومبر کو پیرس میں دہشتگردانہ واقعات میں ایک سو تیس افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ دو دسمبر دوہزار پندرہ کو کیلی فورنیا کے شہر سن برناردینو میں دہشتگردانہ واقعے میں چودہ افراد مارے گئے تھے۔
ان حملوں کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں دائیں بازو کے انتہا پسند حلقوں نے اپنے اھداف کے حصول بالخصوص اسلام مخالف اقدامات کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی لحاظ سے دباؤ کا ماحول بنانے کےلئے ان دہشتگردانہ حملوں کا بہانہ بنایا ہے۔ اس درمیان امریکہ کے ری پبلیکن پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار نے مسلمانوں کے خلاف بیانات دے کر امریکی عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تا کہ ان کی مقبولیت کا گراف اوپر جاسکے۔