~~سوائن فلو کا وائرس خنزیر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ انفلوئنزا وائرس کی ایک قسم H1N1 کہلاتا ہے۔ یہ وائرس انسانی جسم میں داخل ہو کر اس کے مدافعتی نظام کو کم زور کردیتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سوائن فلو کسی بھی عمر کے فرد کو لاحق ہوسکتا ہے، لیکن حاملہ عورت، دو سال سے کم عمر بچے، فربہ اور سانس یا دل کی بیماری میں مبتلا افراد کے متأثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ سوائن فلو متاثرہ افراد کے کھانسنے یا چھینکنے سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتا ہے۔
ماہرین طب کے مطابق اس وائرس سے مختلف احتیاطی تدابیر اپنا کر محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ یہ ہوا کے ذریعے پھیلتا ہے اور سانس لینے کے عمل کے دوران انسانی جسم میں داخل ہو جا ہے۔ اس مرض کے شکار افراد کو چاہیے کہ وہ کھانسنے یا چھینکنے کے دوران منہ پر کپڑا رکھ لیں جب کہ صحّت مند افراد کو اس دوران ان سے دور ہو جانا چاہیے۔
اگر ایسا مریض چھینکنے اور کھانسنے کے دوران اپنے ہاتھ منہ یا ناک پر رکھ لے تو اس سے ہاتھ ملانے سے بھی گریزکیا جائے، کیوں کہ سوائن فلو کا جرثوما اس کے ہاتھوں پر لگ سکتا ہے اور مصافحہ کرنے پر کسی دوسرے شخص میں اس کے منتقل ہوجانے کا خدشہ رہتا ہے۔ ایسے مریض کو کسی بھی فرد کو چھونے یا کھانے پینے کے برتن کو ہاتھ لگانے سے پہلے اپنے ہاتھ اور منہ پانی سے ضرور دھو لینے چاہییں۔
طبی محققین کے مطابق 1918 میں سوائن فلو کے باعث لاکھوں انسان اپنی زندگی سے محروم ہو گئے تھے اور اس واقعے کے کئی سال بعد ماہرین نے انفلوئنزا وائرس کے بارے میں جانا تھا، جس پر تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس کی ایک قسم سوائن فلو بھی ہے۔
سوائن فلو کا شکار ہونے والے میں ابتدائی طور پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ عام فلو جیسی ہوتی ہیں۔ ایسا فرد بخار، کھانسی، گلے میں خراش، ناک بہنے کی شکایت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے جسم میں درد، تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ مسئلہ بڑھنے پر سردی لگنے کے ساتھ قے اور چھینکیں آنا شروع ہو جاتی ہیں جب کہ بیماری کی شدت کی صورت میں مریض کا سانس تیز چلنے لگتا ہے، جلد کا رنگ نیلا یا سرمئی ہو جاتا ہے۔
سوائن فلو کی وجہ سے نمونیا اور ڈی ہائیڈریشن ہونے کے علاوہ پھیپھڑے بھی ناکارہ ہوسکتے ہیں، جس کا نتیجہ موت کی صورت میں نکلتا ہے۔ جسم میں اس جرثومے کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے بیماری کے پہلے ہفتے میں مریض کے گلے اور ناک کی رطوبتوں کی لیبارٹری میں جانچ کی جاتی ہے۔
ماہرین انفلوئنزا وائرس کی جانچ کے بعد جسم میں سوائن فلو کے وائرس کی جانچ کے لیے مزید ٹیسٹ کرتے ہیں۔ اس فلو کی بروقت تشخیص سے نہ صرف مریض کی زندگی بچائی جاسکتی ہے بلکہ اس وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ فلو کے علاج کے لیے مخصوص ادویہ کے استعمال کے ساتھ ڈاکٹرز گہرے سانس لینے، ورزش کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مریض کو ذہنی تناؤ سے بچنے کا مشورہ دیتے ہیں کیوں کہ ذہنی الجھنوں اور پریشانی کی وجہ سے جسم کی وائرس کے خلاف قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ایسے مریض زیادہ سے زیادہ نیند لیں کیوں کہ یہ عمل دماغ میں ایسا مادہ پیدا کرتا ہے، جس سے قوت مدافعت بڑھ سکتی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ متأثرہ شخص کو صحت مند انسانوں سے علیحدہ رکھا جائے۔ اس کے معالج اور دیکھ بھال پر مامور عملہ مریض کے کمرے میں جانے سے پہلے خصوصی دستانے اور ماسک پہنے۔ مریض کو سختی سے ہدایت کی جائے کہ وہ کھانے پینے سے قبل صابن یا مخصوص محلول سے اچھی طرح ہاتھ دھوئے جائے۔ صحّت مند افراد ایسے مریض کا تکیہ، چادر، تولیہ اور دیگر اشیا ہرگز استعمال نہ کریں۔