~~الوقت کی رپورٹ کے مطابق میانمار کے صدر تھین سین کے بیانات میں جو چیز اہم نظر آتی ہے وہ آنگ سان سوچی کی قیادت میں نئی حکومت کی تشکیل میں مدد دینے پر ان کی تاکید ہے۔ میانمار کے صدر کے بیانات ایک طرح سے آنگ سان سوچی کے لئے ان ہدایات کے حامل ہیں کہ نئی حکومت کو قومی مفادات کو اپنی کوششوں کا مرکز قرار دینا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ اقتدار میں شریک دوسری جماعتیں بھی نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی پابند ہیں۔ تھین سین کے بیانات میں ایک اور اہم نکتہ یہ تھا کہ انہوں نے نئی حکومت کے ان امور پر تنقید کا دروازہ کھول دیا ہے جن کے سلسلے میں اس کی کارکردگی ناقص ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ آنگ سان سوچی نے ان برسوں کے دوران خصوصا سات نومبر سنہ دو ہزار پندرہ کے پارلیمانی انتخابات کے بعد نہ صرف جمہوریت کی برقراری کے سلسلے میں واضح موقف اختیار نہیں کیا بلکہ بعض مواقع پر تو انہوں نے اپنے آپ کو امتیازی رویے اور ایک طرح کے سیاسی گھٹن کے ماحول کا حامی ظاہر کیا۔ کئی ملین کی آبادی پر مشتمل روہنگیا مسلمان قوم کی ابتر صورتحال سے آنگ سان سوچی کی بے اعتنائی سے اسی زاویہ نگاہ کی تصدیق ہوتی ہے۔