الوقت- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے گذشتہ ہفتے پہلے اٹلی اور اس کے بعد پیرس کا دورہ کیا۔ گذشتہ سولہ برس میں یہ کسی ایرانی صدر کا دورہ یورپ تھا۔ دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں صدر روحانی کے دورے کو داخلی، علاقائي اور عالمی سطح پر نہایت اہمیت دی جارہی ہے۔ اگرچہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی کادورہ یورپ تقریبا دو ماہ پہلے شیڈول کیا گیا تھالیکن چونکہ فرانس میں دہشتگردانہ واقعات پیش آگئے تھے اسی وجہ سے اسے ملتوی کرنا پڑا۔ صدر روحانی کے دورہ یورپ کی متعدد پہلوؤں سے اہمیت سے قطع نظر یہ دورہ ایسے عالم میں انجام پایا جب ایران اور سعودی عرب کے میں بے حد کشیدگي آگئي تھی اور سعودی عرب عرب ملکوں کی حمایت حاصل کررہا تھا۔ اسی وجہ سے یہ بھی کہا جارہا ہےکہ چونکہ یہ دورہ علاقائي اور عالمی سطح پر توازن قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے لھذا اسکی اہمیت دوچنداں ہوچکی ہے۔
صدر جناب حسن روحانی کے دورہ یورپ کے داخلی اثرات کے بار ےمیں یہ کہا جاسکتا ہے کہ گذشتہ ایک دہائي میں ایران کے خلاف پابندیوں میں شدت لائي گئي تھی اور ایرانو فوبیا کو بھی شدید ہوادی گئي تھی اسی بنا پر ہم نے دیکھا کہ یورپ کا دورہ اس مقصد سے انجام دیا گيا کہ ایران ان ملکوں سے تعلقات مستحکم کرے جو دنیا میں بااثر ہیں۔ اس سے پہلے ایران نے ان ملکون سے تعلقات قائم کئے تھے جو دنیامیں خاص کردار کے حامل نہیں تھے اور بڑی طاقتوں کے مقابل ایران کی مدد نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی چند طرفہ تعاون کو فروغ دے سکتے تھے۔ اسی بنا پر صدر ڈاکٹر روحانی نے یورپ کے بااثر اور بڑے اقتصادی ملکوں کا دورہ کرکے ایران کی خارجہ پالیسی کو نئ جہت دینی کی کوشش کی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس کا مقصد بڑے ملکوں کے ساتھ ایران کے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا بھی ہے۔
علاقائي سطح پر اس دورے کے اثرات کے بار ےمیں یہ کہا جاسکتا ہےکہ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرکے کشیدگي بڑھادی ہے اسی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہےکہ یورپی یونین کے رکن ملکوں بالخصوص فرانس، برطانیہ اور اٹلی جیسے بڑے ملکوں کے ساتھ تعلقات میں فروغ لانا جن سے گذشتہ دو برسوں کے دوران ایٹمی مذاکرات میں تعاون کا تجربہ بھی حاصل ہے سعودی عرب کے کرتوتوں کے باوجود علاقے میں توازن برقرار کرنے میں موثر واقع ہوسکتا ہے۔ درحقیقت سعودی عرب کے جارحانہ اقدامات کی بنا پر جس قدر عرب ملکوں سے ایران کے تعلقات ختم ہوئے ہیں اسی مقدار ایران کے ساتھ یورپی یونین کےتعلقات میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے جیسا کہ ہم نے کہا توازن قائم ہوا ہے۔ اس مسئلے سے قطع نظر چونکہ مشرق وسطی متعد د بحرانوں سے دوچار ہے بالخصوص داعش اس علاقے میں یکہ تازی کررہا ہے یورپی ملکوں اور مجموعی طور سے مغرب سے تعاون کرنے سے علاقے میں کردار ادا کرنے کے لئے ایران کےسامنے مزید مواقع فراہم ہونگے۔ اس کا ایک نمونہ ہم نے ویانا ایک اور ویانا دو مذاکرت میں دیکھے ہیں۔ ان مسائل کے پیش نظر یورپی ملکوں سے تعلقات قائم کرنا سیاسی مسائل میں شمار ہوتا ہے اور اس کے اقتصادی میدان میں بھی سرمایہ کاری، تجارتی لین دین اور تکنیکی نیز سائنسی اور علمی میدانوں میں نتائج برامد ہونگے۔
عالمی سطح پر صدر حسن روحانی کے دورہ یورپ کے نتائج کے بارے میں یہ کہنا چاہیے کہ ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد کے بعد سے ایک طرف تو ایران کا ایٹمی پروگرام جسے امریکہ عالمی امن کے لئے خطرہ قرادے رہا تھا وہ خطرے کی فہرست سے خارج ہوچکا ہے اور دوسری طرف سے ایران کے ساتھ ایٹمی اور غیر ایٹمی میدانوں میں معاہدے ہورہے ہیں اس کےیہ معنی ہیں کہ ایران ایک بار پھر عالمی منڈی میں واپس آگيا ہے اور اب بڑی طاقتوں کے ساتھ تعاون کرسکتا ہے۔ اس حقائق کے پیش نظر ایران کو اپنی شایان شان پوزیشن حاصل ہوگئی ہے جو عالمی تجارت اور سیاسی تعاون سے عبارت ہے۔ اس کے نتیجے میں علاقائي اور عالمی سطح پر ایران کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ صدر جناب حسن روحانی کے دورہ یورپ سے جو اہم سیاسی اور اقتصادی نتائج کا حامل ہے علاقائي سطح پر سعودی عرب کی منفی پالیسی کا سدباب بھی کرسکتا ہے جو علاقے میں یک طرفہ اقدامات کررہا ہے۔