الوقت
کی رپورٹ کے مطابق 27 دسمبرسابق وزیر اعظم پاکستان شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی
، دو بار کی منتخب وزیر اعظم اور جمہوریت کی علامت ، بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی
میں خون میں نہلا دیا گیا ۔
بے
نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے بعد واپسی کے لیے نکلیں
تو جیالوں کا ہجوم فلک شگاف نعرے لگاتا ہوا اپنی قائد سے والہانہ محبت کا اظہار کر
رہا تھا سکیورٹی خدشات کو نظر انداز کیا اور گاڑی کے چھت سے نکل کر کارکنان کے نعروں
کا پرجوش انداز میں جواب دینے لگیں مگرشکاری گھات لگائے بیٹھے تھے بیک وقت گولیوں اور دھماکے کی گونج نے منظر نامہ
تبدیل کر دیا ۔
بے
نظیر بھٹو سر میں گولی لگنے سے زخمی ہو کر خودکش دھماکے سے پہلے ہی گاڑی کے اندر گر
گئیں، زخمی حالت میں راولپنڈی جنرل ہسپتال پہنچایا گیا لیکن کروڑوں دلوں پر راج کرنے
والی بی بی شہید کا رتبہ پا چکی تھیں ۔
بے
نظیربھٹو کی زندگی میں دسمبر کافی اہمیت کا حامل رہا ۔ دسمبر میں انکا نکاح ہوا ۔ دسمبر
میں وزیراعظم بنیں اوردسمبرمیں ہی اس جہاں فانی سے کوچ کر گئیں ۔
بے
نظیر بھٹو اکیس جون 1953 کو پیدا ہوئیں ۔ ابتدائی تعلیم پاکستان میں جبکہ اعلی تعلیم
امریکہ اور برطانیہ میں حاصل کی ۔ قریب دس سال اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1977 میں
پاکستان لوٹیں تو گھر میں نظر بند ہو گئیں ۔ سال بھر میں انکے والد اور پاکستان کے
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اس دوران انکی والدہ نصرت بھٹو
نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی ۔
1984 میں وہ لندن چلی گئیں اور اپنی والدہ
کے ساتھ پیپلز پارٹی کی جوانئٹ لیڈر بن گئیں۔ پارٹی کو منظم کیا اور 1986 میں پاکستان
واپس آ کر آزاد انتخابات کی کوششوں میں لگ گئیں ۔
18 دسمبر1987 کو انکی شادی آصف علی زرداری
سے ہو گئی اور اگلے دسمبر تک وہ الیکشن جیت کر پاکستان کی گیارہویں وزیراعظم بن گئیں۔
انہیں مسلم ممالک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے ۔ وزیر اعظم بننے
کے تین ماہ بعد انکے یہاں پہلے بچے بلاول کی ولادت ہوئی ۔
اگست
1990 میں انکی حکومت کرپشن کے الزامات کے سبب ختم کر دی گئی۔ 1993 میں الیکشن جیت کر
وہ پھر وزیر اعظم بنیں لیکن اس مرتبہ بھی انکی حکومت 1996 تک رہی۔
1999 میں انہوں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار
کر لی۔ دو ہزار دو کے الیکشن میں انکی جماعت کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ انکی جلا وطنی
18 اکتوبر 2007 کو ختم ہوئی۔ وطن واپسی پر ان پر قاتلانہ حملہ ہوا انہیں نظر بند رکھا
گیا لیکن انہوں نے پارٹی کو منظم کرنے کا کام جاری رکھا ۔ دسمبر میں نظر بندی ختم ہوئی
تو انہوں نے شہر شہر جا کر جلسے کئے ۔
27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے جلسے سے واپسی
پر ان پر جان لیوا حملہ ہوا۔ یوں وہ اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئیں۔