الوقت- پاکستان اور ہندوستان دو ہمسایہ لیکن دیرینہ رقیب ممالک ہیں۔1947 سےلیکر اب تک دوجنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔دونوں ایٹمی طاقت ہونے کےساتھ ساتھ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑکے بھی ذمہ دار ہیں۔دونوں کے درمیان مذاکرات بھی ہوتے ہیں لیکن کچھ دیر جاری رہ کہ ختم بھی ہوجاتے ہیں۔دونوں طرف کی مثبت قوتیں ماحول کو کشیدگی سےبچانے کے لئے کبھی بیک ڈور اور کبھی کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لیتی رہتی ہیں لیکن تاحال کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا ہے۔گذشتہ دنوں ہندوستان کے وزیراعظم نےروس کی دورے سے واپسی پر کچھ دیر لاہور میں قیام کیا اور پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کی۔
پاکستان نے ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ لاہور اور وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ان کی ملاقات کو مثبت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ نواز شریف نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا ہے۔
دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے اس ملاقات میں فیصلہ کیا کہ وہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کے لیے تعمیری طریقے سے دوبارہ مذاکرات شروع کریں گے۔ نریندر مودی جمعہ کے روز اپنے دورہ کابل سے واپسی پر لاہور پہنچے۔ گیارہ سال کے عرصے کے بعد کسی بھی ہندوستانی وزیراعظم کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔ اس سے قبل دو ہزار چار میں ہندوستان کے اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں افغانستان کے دورے کے بعد ہندوستان کے وزیراعظم کا پاکستان کا دورہ اہم اور قابل توجہ ہے۔ پاکستان افغانستان کو اپنی اسٹریٹجک گہرائی سمجھتا ہے اور وہ افغانستان میں ہندوستان کے اثرورسوخ کا سختی سے مخالف ہے۔ اسی بنا پر پاکستانی حکام نے ہمیشہ افغانستان کی حکومت اور امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ و ہ افغانستان میں ہندوستان کے اثرورسوخ کو روکیں۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب ہندوستان نے افغانستان میں سرمایہ کاری کر کے وہاں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کرنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ نریندر مودی کا دورہ افغانستان بھی اس ملک کی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے لیے انجام پایا کہ جو ہندوستان نے اپنے خرچ سے تعمیر کی ہے۔
اس سے قبل افغانستان میں ہندوستان کے ماہرین اور دیگر افراد کی موجودگی کے بعد ان پر حملے کیے گئے کہ جن کا الزام ہندوستانی حکومت نے بالواسطہ طور پر پاکستان پر لگایا کہ جو افغانستان میں ہندوستان کی موجودگی اور اثرورسوخ نہیں چاہتا ہے۔ اسی بنا پر افغانستان میں ہندوستان کے اثرورسوخ کے بارے میں نئی دہلی کی ایک اہم ترین پریشانی پاکستان یا اس کے حامی گروہوں کے ممکنہ منفی اقدامات ہیں۔ اس بنا پر ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کا کابل سے واپسی پر لاہور کا دورہ دونوں ملکوں کے اختلافات کو حل کرنے سے زیادہ پاکستانی حکومت کو یہ اطمینان دلانے کے لیے ہے کہ ہندوستان افغانستان میں پاکستان کے مفادات کے میدان میں داخل نہیں ہو گا۔
اسی دوران ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کی حکومت کو افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے پاکستان کے تعاون اور اس کا اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں ہندوستان کے مفادات خطرے میں نہ پڑیں۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں اگر اسلام آباد اور نئی دہلی نے اس سلسلے میں بہتر اور تعمیری تعاون کیا کہ جس سے ہندوستان میں اطمینان پیدا ہوا تو اس سے تمام شعبوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان برصغیر کے علاقے میں دو ایٹمی حریف ہیں لیکن اس وقت دونوں ملکوں کے حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے مختلف شعبوں میں انھیں باہمی تعاون کی ضرورت ہے کہ افغانستان ان میں سے ایک ہے۔
دوسری جانب نریندر مودی کے دورہ پاکستان کی ہندوستان کے اندر مخالفت کی جا رہی ہے۔ ہندوستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگرس نے نریندر مودی کے دورہ پاکستان پر تنقید کی ہے۔ کانگرس پارٹی کے ترجمان اجے کمار نے کہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں اتنی بہتری نہیں آئی ہے کہ ہندوستان کے وزیراعظم افغانستان سے واپسی پر لاہور میں رکیں۔ نئی دہلی ریاست میں برسر اقتدار عام آدمی پارٹی نے بھی نریندر مودی کے دورہ لاہور پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قبل حکمراں جماعت بی جے پی ہندوستان کی سابق حکومت پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں تنقید کرتی تھی۔
بہرحال ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے ہمیشہ تعلقات کو فروغ دینے کا خیرمقدم کیا ہے اور اس سلسلے میں قدم بھی اٹھائے ہیں۔ جن میں نریندر مودی کی جانب سے نواز شریف کو ان کی سالگرہ کی مبارک باد دینا بھی شامل ہے لیکن دونوں ملکوں میں موجود انتہا پسند افراد نئی دہلی اور اسلام آباد کے تعلقات میں کشیدگی کو ختم کرنے کی نواز شریف اور نریندر مودی کی خواہش پر عمل درآمد میں رکاوٹ بننے کی کوشش کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی عوامی اور جمہوری قوتیں غیر جمہوری اور جنگ پسند قوتوں کو کنٹرول کرنے کےلئے کیا اقدامات کرتی ہیں۔