الوقت- افغانستان میں طالبان نے جنوبی صوبے ہلمند کے علاقے سنگین پر اپنے مکمل قبضے کا دعوی کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعوی کیا ہے کہ طالبان نے ہلمند کے علاقے سنگین پر مکمل قبضہ کرلیا ہے اور اس وقت شہر سنگین کے قریب صرف ایک ٹھکانے پر افغان سرکاری فوج کا کنٹرول ہے اور اس پر بھی جلد ہی طالبان کا قبضہ ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ صوبے ہلمند کے ڈپٹی گورنر محمد جان رسول یار نے اتوار کے روز اپنے ملک کے صدر محمد اشرف غنی کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ صوبے ہلمند کی سیکورٹی کی صورت حال ابتر ہے اور اس صوبے کے بیشتر علاقے اس وقت مخالفین کے محاصرے میں ہیں اور صرف دو روز کے دوران طالبان کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں نوّے سے زائد افغان فوجی مارے جا چکے ہیں۔ انھوں نے طالبان کے ہاتھوں اس صوبے کے سقوط کر جانے کے امکان پر خبردار بھی کیا۔ادھراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پندرہ ووٹوں سے ایک قرار داد منظور کر کے طالبان کے خلاف پابندیاں مزید سولہ مہینوں کے لئے بڑھا دی ہیں-
اس قرارداد کی اہم شقوں میں طالبان گروہ کے اقتصادی اور مالی ذرائع کو بند کرنا ، طالبان کے اراکین کی بین الاقوامی آمد و رفت پر پابندی ، اور اس گروہ اور القاعدہ کے ساتھ خرید و فروخت اور بالواسطہ یا براہ راست لین دین روکنا شامل ہے-
اس قرار داد میں آیا ہے کہ کوئی بھی شخص یا گروہ جو کسی بھی طریقے سے طالبان یا القاعدہ کے افکار و نظریات کے پھیلنے میں مدد کرے گا وہ بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا-
طالبان یا القاعدہ کے لئے جس طرح کی مدد پر پابندیاں عائد ہیں ان میں مالی و اقتصادی امداد ، نئے عناصر و افراد کی بھرتی ، افغانستان میں سیکورٹی کی صورت حال کو نقصان پہنچانے میں تعاون، بالواسطہ یا براہ راست حمایت ، دھماکاخیز مواد کی فراہمی چاہے وہ فوجی ہوں یا غیر فوجی اور فوجی ساز و سامان کی فراہمی ہے-
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایسے عالم میں طالبان پر پابندیوں ک مدت بڑھائی ہے کہ یہ گروہ گذشتہ پابندیوں کے باعث نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہوا ہے بلکہ افغانستان میں حملے تیز کر کے طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے-
اس کا مطلب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی افادیت اب ختم ہو چکی ہے اور انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے عالمی برادری کو مل کر ایک مشترکہ تعریف کے تحت اقدام کرنا چاہئے کیونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین نہ صرف دہشت گردی اور اس کی علامتوں کے سلسلے میں ایک دوسرے سے اختلاف نظر رکھتے ہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ جیسے سلامتی کونسل کے اہم اراکین طالبان کی بھرپور حمایت کر کے افغانستان میں بدامنی اور بحران جاری رکھے ہوئے ہیں -
اسی بنا پر سیاسی ماہرین، طالبان پر پابندی کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو صرف ایک سیاسی چھلانگ سمجھتے ہیں کہ جس کا نہ صرف افغانستان کے حالات پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے بلکہ اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دہشت گردی مخالف اقدامات کے سلسلے میں عالمی حلقوں کو مایوس کر دیا ہے-
افغانستان کے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے امریکہ اور برطانیہ جیسے مستقل اراکین طالبان مخالف اس کونسل کی قراردادوں کی پابندی نہیں کرتے تو سلامتی کونسل سے کیسے یہ توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے ممالک اس کی پابندی کریں-
کیونکہ سلامتی کونسل کی قرار داد پر عمل درآمد کی صورت میں طالبان کو اس وقت کمزور ہونا چاہئے تھا اور افغانستان میں امن قائم ہونا چاہئے تھا لیکن نہ صرف ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان گروہ ، اپنی طاقت بڑھا کر جنوب سے لے کر شمال تک افغانستان کے مختلف شہروں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کر رہا ہے -
افغانستان کے امور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے نیکلس ھیسم کے یہ بیانات کہ اس ملک میں طالبان کا خطرہ ، داعش دہشت کے خطرے سے زیادہ اور سنگین ہے، اسی تناظر میں قابل توجہ اور قابل غور ہے-
اس بنا پر افغانستان کے عوام کو توقع ہے کہ اقوام متحدہ بالخصوص اس کی سلامتی کونسل کو اس ملک میں امن و امان قائم کرنے کے سلسلے میں عملی قدم اٹھانا چاہئے اور سیاسی و عوام کو دھوکا دینے والی قراردادوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے اوراس بات کو خصوصی طور پر مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان اقدامات سے داعش گروہ کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے-