الوقت۔ برطانوی پارلیمنٹ نے ڈیوڈ کیمرون کی داعش کے خلاف مبارزہ کی اسٹریٹیجی کی ایسی حالت میں کثریت رائے سے منظوری دے دی ہے کہ مبصرین نے برطانوی وزیراعظم کی اس اسٹریٹیجی کی بنیاد کو غیر حقیقت پسندانہ اور مصنوعی قرار دیا ہے۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانیہ کے ان ہوائی حملوں کا عملی طور پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہوگا۔ برطانوی جنگی جہازوں ٹائفن اور ٹورناڈو نے پارلیمنٹ سے منظوری کے فوری بعد شام میں داعش سے متعلق کہے جانے والوں ٹھکانوں کو پہلی بار اپنے حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ گذشتہ شب برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین نے تقریباً 10 گھنٹَے تک ڈیوڈ کیمرون کے داعش کے مقابلے کے لئے دے گئے پلان پر بحث کی اور بلآخر 223 مخالف آراء کے مقابلے میں 397 حامی اراکین کی رائے سے ڈیوڈ کیمرون کے اس پلان کی منظوری دے دی گئی۔ اس منصوبہ نے ایسی حالت میں پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کی ہے کہ اس منصوبہ میں بہت سے بنیادی کمزوریاں موجود ہیں، جس کی وجہ سے برطانوی پارلیمنٹ کے بعض اراکین نے اس منصوبے کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
سب سے اہم تنقید حزب کارگر کے صدر جرمی کاربن نے کی۔ جرمی کاربن نے اپنی پارٹی کے اراکین کو آزاد چھوڑا ہوا تھا کہ وہ آزادانہ طور پر اس منصوبے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ جرمی کاربن نے لکھا ہے کہ حقیقت یہی ہے کہ اپنے منصوبے کے بارے میں ڈیوڈ کیمروں کے دلائل اطمینان بخش نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں قابل اعتماد زمینی فورس موجود نہیں ہے جبکہ اس مسئلے کے ڈپلومیٹک حل کا فی الحال کوئی پروگرام بھی نظر نہیں آرہا۔ انہوں نے ڈیوڈ کیمروں کے جلد بازی پر مبنی منصوبے کے بارے تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے یہ دلیل دی اور اس پر ثابت قدم بھی رہا کہ ہمیں اس جنگ کے خاتمے اور شام کے مسئلہ کے ڈپلومیٹک حل کے لئے کی جانے والی کوششوں کو دو برابر کرنا چاہیئے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حزب استقلال اسکاٹ لینڈ کے سابق سربراہ اور برطانوی پارلیمنٹ کے رکن الیکس سامونڈ نے کہا ہے کہ آج رات برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے جس کثرت رائے کا اظہار کیا گیا ہے یہ بالکل ایسی ہی کثرت رائے ہے، جس کا اظہار 2003ء میں عراق پر حملے کے لئے کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ برطانوی پارلیمٹ کی اس کثرت رائے کو عراق کے بارے میں ہونے والے فیصلے کے برابر اشتباہ تو نہیں سمجھتے، لیکن وہ اسے بھی ایک غلط اسٹریٹیجی سمجھتے ہیں۔
ڈیوڈ کیمروں کے منصوبے کے بارے میں سب سے اہم بحث زمینی فورسز کے بارے میں ہے، جنہیں برطانیہ کے ہوائی حملوں کے تکمیل کنندہ کے طور پر عمل کرنا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ شام میں حکومت مخالف معتدل مسلح افراد کی تعداد تقریباً ستر ہزار ہے اور داعش کے ساتھ مقابلے کے لئے ان سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ برطانیہ وزیراعظم کا یہ دعویٰ بہت سے مبصرین حتٰی برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین کی جانب سے بھی تمسخر کا باعث بنا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ میں حزب استقلال اسکاٹ لینڈ کے پارلیمانی رہنما انگوس رابرٹسن نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ ستر ہزار مسلح افراد کہ وزیراعظم نے ممکنہ طور پر برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے ہم پیمان کے طور پر جن کا ذکر کیا ہے، ان میں سے کتنے ہیں جو معتدل یا میانہ رو اور باقی کتنے ہیں جو بنیاد پرست ہیں۔؟ انہوں نے بارہا یہ سوال اٹھایا اور وزیراعظم، وزیر امور خارجہ، حکومتی پارٹی کے محافظہ کاروں اور دیگر وہ اراکین جنہوں نے اس منصوبے کے بارے میں مثبت رائے دے تھی، ان سے یہ سوال پوچھا، لیکن وزیراعظم یا وزراء میں سے کسی نے بھی ان کے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔
برطانوی ہوائی حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں، بین الاقوامی حقوق، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد، جس میں سلامتی کونسل نے ساتویں شق سے استفادے کی اجازت نہیں دی اور اسی طرح داعش کی ممکنہ شکست کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں واضح پروگرام نہ ہونے اور آیا داعش کے خلاف برطانیہ کے ان ہوائی حملوں کے نتیجے میں برطانیہ کی امنیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، جسے اہم امور کے بارے میں برطانوی پارلیمنٹ میں کھل کر بحث ہوئی۔ جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ برطانیہ کے ہوائی حملوں کے نتیجے میں شام کے میدانی حقائق میں کوئی تبدیلی ظاہر نہیں ہوگی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے ڈیوڈ کیمروں کے منصوبے کی دی جانے والی کثرت رائے کی حیثیت فقط علامتی ہے، تاکہ وہ ظاہر کرسکیں کہ دہشتگردی کے ساتھ مباررزہ جو کہ آج کل مغربی ممالک میں ایک فیشن بن چکا ہے، کے بارے میں ان کا ایک موثر کردار ہے۔ جان مکین جو کہ امریکہ کے جنگ طلب سینیٹر اور شام میں حکومت مخالف باغیوں کے حامی ہیں، انہوں نے برطانیہ کی جانب سے داعش دہشتگردوں کے خلاف اس فیصلہ کو مثبت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ برطانیہ کے اس فیصلے کا موجودہ جاری جنگ میں کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔ ہرچند کہ ایسا ممکن نظر نہیں آرہا کہ داعش سے مقابلہ کے لئے برطانوی ہوائی حملے زیادہ موثر ثابت ہونگے لیکن جیسا کہ لورن کنزبرگ نے بی بی سی پر کہا ہے کہ کسی بھی ملک میں فوجی مداخلت کو سطحی نہیں لینا چاہیے، ہوسکتا ہے کہ اس اقدام کے بہت سنگین سیاسی اثرات مرتب ہوں۔