الوقت کی رپورٹ کے مطابق فرد جرم کی کارروائی کے دوران عدالت نے قراردیا کہ پولیس اہلکاروں نے وردی میں اور بعض نقاب پوش اہلکاروں نے عدالتی احاطے میں سائلین اور میڈیا کے نمائندوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جس پر سندھ حکومت سمیت پولیس کے اعلی حکام کو کارروائی کا کہا لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، عدالتی احاطے میں اہلکاروں کی جانب سے سیکیورٹی کے نام پر عدالتی وقار مجروح کیا گیا اور قانون ہاتھ میں لینے پرپولیس افسران کی جانب سے بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو کہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
سماعت کے دوران ایس ایس پی طاہر نورانی کی عدم پیشی پرعدالت نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی غیرحاضری سے متعلق پوچھا جس پرپولیس حکام نے جواب دیا کہ وہ عمرے پرگئے ہوئے ہیں اس موقع پرعدالت نے آئی جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب آپ بتائیں طاہر نورانی آپ کی اجازت سے گئے جس پرغلام حیدرجمالی خاموش رہے۔
عدالت نے آئی جی سندھ غلام حیدرجمالی، ایڈیشنل آئی جی غلام قادرتھیبو، ڈی آئی جی ساؤتھ ڈاکٹرجمیل، ایس ایس پی چوہدری اسد، ایس ایس پی آپریشنزمیجرسلیم، ڈی آئی جی آپریشنزفیصل بشیرمیمن، ڈی آئی جی ویسٹ فیروزشاہ اورایس ایس پی زیشان بٹ پرفرد جرم عائد کردی جس کے بعد تمام افسران نے صحت جرم سے انکارکردیا۔ عدالت کی جانب سے فرد جرم عائد کئے جانے کے بعد باقاعدہ مقد مے کی سماعت کے لئے درخواست گزاروں اور گواہوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ 23 مئی کو پیپلزپارٹی کے برطرف رہنما ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سندھ ہائیکورٹ آمد کے موقع پر پولیس اہلکاروں نے ان پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں سائلین سمیت میڈیا کے نمائندے شدید زخمی بھی ہوئے جس کے بعد آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے عدالت کا محاصرہ کرنے والے ایس ایچ او پریڈی اور ایس ایس یو کے 12 اہلکاروں کو معطل کیا جب کہ اس معاملے میں پولیس کے اعلی افسران نے عدالت سے تحریری معافی بھی مانگی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔