الوقت- سعودی عرب نے داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف چونتیس اسلامی ملکوں کا اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔اس پر مختلف حلقوں سے مختلف طرح کا ردعمل سامنے آرہا ہے کوئی اسے ایران کے خلاف سعودی عرب کا نیا ہتھکنڈا قرار دےرہا ہے اور کوئی مشرق وسطی میں شیعہ سنی خلیج کو بڑھانے کی سازش سے تعبیر کررہا ہے۔ عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے جمعرات کی رات ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی اتحاد میں شامل ملکوں نے گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف جنگ کے لئے بغداد کی درخواستوں پر کوئی توجہ نہیں دی ہے اور اگر اس دہشت گرد گروہ کے خلاف مہم کے لئے عراق کی مرجعیت کا حکم نہ ہوتا تو داعش دہشت گرد گروہ، اب تک خلیج فارس کے کئی ملکوں پر قبضہ کرچکا ہوتا۔ عراق کے وزیر اعظم نے کہا کہ عراق اور شام، اس وقت ایسے دو اسلامی ممالک ہیں جو داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف حقیقی طور پر برسرپیکار ہیں جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق کی مدد کے لئے بغداد نے کئی ملکوں سے رابطہ کیا مگر انھوں نے عراق کی مدد کرنے میں کسی بھی طرح کی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ واضح رہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحاد میں شامل کئی ممالک، ایسے ہیں جو داعش دہشت گرد گروہ کی تشکیل اور اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے بھرپور تعاون کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار کے بقول
سعودی عرب کی طرف سے 34مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کا اعلان تو قابل فہم ہے مگر پاکستان کی طرف سے شمولیت اور خیر مقدم ؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ ایران‘ شام اور عراق کی شرکت کے بغیر اس اتحاد کا مقصد کیا ہے؟‘‘ عالم اسلام کومسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے سے لڑانے کی امریکی و یورپی حکمت عملی ہے یا مسلم ممالک کی سیاسی و فوجی قیادت کی طویل سوچ بچار کا نتیجہ ؟ بہت سے سوالات کا جواب درکار ہے۔
دولت سے مالا مال عرب ممالک اپنی بادشاہتیں اور امارتیں بچانے کے لیے نہ صرف عرب و عجم بلکہ شیعہ سنی کے اختلافات کو غنیمت سمجھتے ہیں مگر پاکستان‘ ترکی‘ ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے غیر عرب ممالک نے کبھی اپنے آپ کو اس تنازعے میں نہیں الجھایا۔
ایران عراق جنگ کے موقع پر پاکستان جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کی گرفت میں تھا اور ایران کے انقلابی علماء و حکمران جنرل کو امریکہ کا گماشتہ سمجھتے تھے۔ سعودی عرب کے شاہ فہد‘ اردن کے شاہ حسین اور مصر کے انور السادات و حسنی مبارک سے ضیاء الحق کے گہرے روابط بھی کسی سے مخفی نہ تھے مگر تمام تر دبائو کے باوجود پاکستان نے اس جنگ میں غیر جانبداری کو شعار کیا اور دو مسلم ممالک کے تنازعہ میں کسی ایک کا ساتھ دینے کے بجائے ثالثی پر اصرار کیا یہ ایک قومی ضرورت تھی اور تقاضائے دانش مندی بھی۔
داعش کا قیام عراق کو مسلکی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی احمقانہ امریکی پالیسی کا منطقی نتیجہ ہے۔ شام کے بشار الاسد سے نمٹنے کے لیے بھی وہی ناقص اور نقصان دہ حکمت عملی وضع کی گئی جو عراق میں ناکامی سے دوچار ہو چکی تھی۔ عراق اور لیبیا میں ایک مستحکم حکومت کو ختم کرنے کا نتیجہ القاعدہ اور داعش کی مضبوطی کی صورت میں سامنے آیا اس پالیسی کا امریکہ و یورپ کے لیے اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ میدان جنگ عالم اسلام اور شرق اوسط ہے‘ مادی اور انسانی وسائل مسلمانوں کے ضائع ہو رہے ہیں۔ مرنے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں مگر فوائد امریکہ و یورپ سمیٹ رہا ہے جبکہ کل تک جن مسلم ممالک‘ عوام‘ افواج اور انقلابی تنظیموں کا ہدف اسرائیل ہوا کرتا تھا‘ وہ اب ایک دوسرے سے گتھم گتھا‘ صفحہ ہستی سے مٹنے مٹانے پر بضد ہیں۔
امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے 34رکنی فوجی اتحاد کو امریکی حکمت عملی کے عین مطابق قرار دے کر کوئی بات مخفی نہیں رہنے ‘ بلّی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ جب دو عشرے قبل عسکری ماہرین پاکستانی قوم کو باور کرایا کرتے تھے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ مسلمانوں کو مسلکی ‘ لسانی اور انسانی بنیادوں پر لڑا کر ان کے وسائل پر قبضہ اور اسرائیل کا تحفظ یقینی بنانا چاہتا ہے تو کوئی مان کر نہیں دیتا تھا مگر آج یہ جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ آج کوئی مسلم ریاست فلسطینی‘ کشمیری‘ چیچن اور روہنگیا مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کا ناجائز وجود بھی ان کے ایجنڈے سے خارج ہے مگر غلط امریکی حکمت عملی سے وجود میں آنے والے عفریت یعنی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے 34مسلم ممالک فوجی اتحاد پر آمادہ ہیں‘ یہ دیکھے اور سوچے بغیر کہ عراق‘ ایران اور شام کی شمولیت کے بغیر اس اتحاد کا نتیجہ عالم اسلام کی مزید تفریق ‘ تقسیم اور دہشت گرد ی کے نئے پودوں کی افزائش کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ وہ پچپن ہزار انسانی جانوں کی قربانی دے چکا ہے اور اس میں پانچ ہزار سے زائد فوجی افسر و جوان شامل ہیں یہاں مذہبی فرقہ وارانہ‘ نسلی اور لسانی بنیادوں پر دہشت گردوں نے تباہی مچائی مگر مسلکی اختلافات اور تعصبات نے آبادی کو اس طرح تقسیم نہیں کیا جس طرح کئی دیگر ممالک میں دیکھنے کو ملا۔ یہ ریاست کی اس محتاط پالیسی کا نتیجہ ہے جو عراق ایران اور یمن سعودی عرب جنگ کے دوران اپنائی گئی۔ اب بھی کسی ایسے اتحاد میں شمولیت‘ جس کی قیمت ہمیں پاکستان میں داعش کے داخلے اور مسلکی بنیادوں پر معاشرے کی گہری تقسیم کی صورت میں ادا کرنی پڑے‘ خوب سوچ سمجھ کر اور حتمی نفع و نقصان کا اندازہ لگا کر کی جائے اس ضمن میں افغانستان‘ عراق اور شام میں غیر ملکی مداخلتوں اور دہشت گردوں سے نمٹنے کی امریکی و یورپی حکمت عملی کا باریک بینی سے مطالعہ و مشاہدہ اور نتائج کا ادراک ضروری ہے۔