الوقت- پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ جو لوگ فوج کی جانب سے سول حکومت کے معاملات میں مداخلت کی باتیں کررہے ہیں انہیں موجودہ دور کو ماضی کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٤٠ سال فوج نے حکمرانی کی ہے اور بالواسطہ طور پر حکومتوں پر اثر انداز ہوتی رہی ہے جب کہ میں بذات خود فوجی طرز حکمرانی کا بہت مخالف تھا اور ہوں لیکن آج کے ماحول میں اطمینان محسوس کرتا ہوں تاہم جس روز بھی سویلین حکومت کے کام میں فوجی مداخلت محسوس کروں گا تو اپنی آواز ضرور بلند کروں گا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت کا کسی دوسرے ادارے کے ساتھ اختیارات کے مقابلے کے حصول کا تاثر درست نہیں، ہم صرف اداروں کی حیثیت سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے فوج کی جانب سے گورننس پر تنقید کے سوال کے جواب میں کہا کہ اس طرح کی تنقید ہمارا میڈیا اور عدلیہ بھی کرتے ہیں تو پھر صرف فوج کے بارے میں ہی کیوں باتیں ہوتی ہیں۔ پاکستانی فوج کی حکومتی معاملات میں مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے پاکستان کی فوج نے بظاہر قومی لیکن حقیقت میں صرف اپنے مفاد کے لئے سیاسی حکومتوں کے تختے الٹے ہیں البتہ یہاں پر سیاستدانوں کو بھی بری زمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب ایوب خان کو وزیر دفاع کی حیثیت سے گورنر جنرل محمد علی بوگرہ کی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے ۔ جنرل ایوب خان نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ فوج کا سربراہ بھی رہے گا۔ اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ فوج کا سیاسی کردار بڑھتا گیا ۔ حتیٰ کہ اکتوبر ۱۹۵۸ میں سکندر مرزا نے حکومت برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا۔ تین ہفتے کے بعد ان کے اپنے ساتھ یہی معاملہ پیش آ گیا ۔ جنرل ایوب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ صدر پاکستان بھی بن گئے
سقوط ڈھاکہ کے حالات و واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے یحییٰ خان کی رنگین مزاجی کا ذکر ہوتا ہے ۔ یہ پاکستانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے کہ کس طرح ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پوری قوم کو دنیا کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا ۔ حال ہی میں شائع ہونے والی تاریخی اہمیت کی حامل حمود الرحمان کمیشن رپورٹ نے بھی جنرل یحییٰ خان کے اسی کردار کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ پاکستانی تاریخ کے اس درد انگیز حادثے پر غور کرتے ہوئے ذہن اس طرف ضرور جاتا ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی و ناکامی میں کارفرما دنیوی تدبیروں کے ساتھ ساتھ اخلاقی اصولوں کا بھی ایک اہم کردار ہے ۔ اگر ان کا لحاظ نہ رکھا جائے تو پھر مسلمان خود ناکامی کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں ۔یحیی خان کا فوجی دور اپنی تمام ترخامیوں کے باوجود ایک اچھے منصفانہ انتخابات کے حوالے سے معروف ہے۔اس کے بعد بھٹو کا سول مرشل لا بھی پاکستانی تاریخ کا حصہ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر جمہوری دور کے بعد ضیا الحق کے مارشل لا کا گیارہ سالہ طویل دور شروع ہوتا ہے ۔ ۔ ضیا الحق اسلام کا نام لے کر اقتدار پر قابض ہوئے اور ملک ایک دفعہ پھر جمہوریت کی پٹڑی سے اتر گیا۔ نواز شریف اور بے نظیر دونوں کے دور حکومت میں سیاسی عدم استحکام رہا اور اسمبلیوں کو رخصت کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور بالآخر ۱۲ اکتوبر کو پرویز مشرف ایک فوجی حکمران کی حیثیت سے اقتدار پر قابض ہوئے ۔
۔ پاکستان کی تاریخ کو دیکھ کر جس میں زیادہ عرصہ فوجی حکومت ہی رہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی فوج کی سیاسی تاریخ جمہوریت کشی پر مشتمل ہے ۔ اقتدار کے حصول کے لیے غیر فوجی رہنماؤں نے جو محلاتی سازشیں کیں ، ان میں بھی فوج برابر کی شریک رہی۔
آج کا دور راحیل شریف کا دور ہے شہرت کا شوقین یہ فوجی جنرل عوامی مقبولیت کے لئے ہرقدم اٹھا سکتا ہے البتہ ابھی تک اس نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے فوج کے اندر اسکی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی آئے ۔وہ ایک طرف نوازشریف کو اپنا محسن سمجھتا ہے کہ اس نے جونیئر ہونے کے باوجود اسے آرمی چیف بنایا ہے تو دوسری طرف میاں برادری کی خامیوں سے اپنے دامن کوبھی بچانا چاہتا ہے اب دیکھنا یہ کہ راحیل شریف ان دونوں میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے اپنے محسن کا ساتھ دیتا ہے یا عوامی امنگوں کا احترام کرکے اپنی مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع کے مذکورہ بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔