الوقت- اس آرٹیکل میں ہم یہ دیکھیں گے کہ آل سعود کے اتحاد نے کس بنا پر جنگ بندی کی پیش کش کی ہے اور کیا یمنی گروہوں کے مذاکرات کا امکان پایا جاتا ہے اور اسکےنتائج کیا نکل سکتے ہیں۔
یمن میں اس وقت جنگي محاذوں پر یمنی فوج اور عوامی فورسز کو کامیابی حاصل ہورہی ہے اور ان کا پلڑا بھاری ہے۔ ادھر زمینی محاذوں پر بھی تحریک انصاراللہ مکمل طرح سے حاوی ہے اور اس نے دشمن کے پست حوصلوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جارحین کے تمام حملوں کو ناکام بنادیا ہے۔
جنوبی یمن کے بدلے میں جنوبی سعودی عرب کی اسٹراٹیجی نے تحریک انصاراللہ اور یمنی فوج کو کافی فائدہ پہنچایا ہے اور انہيں اس سے بڑی کامیابی ملی ہیں۔
یمن میں جاری جنگ کی صورتحال کا جائزہ لینے سےمعلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے زیر قبضہ علاقے نیز بالخصوص عدن کی صورتحال صومالیہ سے بڑی حدتک شباہت رکھتی ہے۔ ادھر اگر فضائي جارحیت کو نظر میں نہ لائيں تو یمن کے دیگر علاقے امن و امان کے لحاظ سے بہتر حالت میں ہیں۔
سعودی عرب کی اپنے اتحاد کو سیاسی اور فوجی لحاظ سے منظم کرنے میں ناکامی اور اس اتحاد کی افواج کو شدید جانی اور مالی نقصانات کی وجہ سے جنوبی یمن میں موجود عسکری دھڑوں اور متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات میں شدت آگئي جس کی بناپر سعودی عرب نے یمن کے سیاسی گروہوں کے درمیان جینوا میں مذاکرات کی پیش کش کی ہے اور کہا ہے کہ بحران حل کرنے کے لئے عالمی قوانین، اقوام متحدہ کے معاہدے اور یمنی گروہوں کے مذاکرات، مسقط مذاکرات اور اس سے پہلے کے معاہدوں کی اساس پر حل کرنے کی کوشش کی جائے گي۔
مسقط معاہدے پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمن کے تمام گروہوں نے دستخط کئے ہیں لیکن سعودی عرب نے اس کی مخالفت کی ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے اسی موقف پر اصرار چونکہ یمن میں جنگ بندی اور ریاض کے اھداف کا عدم حصول آل سعود کی شکست فاش ہوگی اسی بنا پر آل سعود یمن پر جنگ مسلط کرکے تھکنے کےباوجود جنگ بندی کے لئے مذاکرات کی مخالفت کررہی ہے۔
مذاکرات کی ناکامی سعودی عرب اور اس کے دھڑوں کی ناکامی شمار ہوگي اور انہیں مزید نقصانات پہنچیں گے بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ انہیں میدان جنگ میں کس طرح کی کوئي کامیابی حاصل نہیں ہوئي ہے۔ اس کے علاوہ شمالی سرحدوں کےخاتمے اور القاعدہ اور داعش کے دہشتگردوں کی تعداد اور ان کی سرگرمیوں میں اضافے سے جنوبی یمن کے عوام کے لئے مزید مشکلات بڑھیں گی۔
اقوام متحدہ کے پروگرام پر عمل درآمد اور اجلاس میں شریک فریقوں کو اقوام متحدہ کی پالیسیوں سے آگاہ کرنا اور تحریک انصاراللہ اور ان کے اتحادیوں سے اقوام متحدہ کا سلوک نیز موجودہ دوہری پالیسیوں کے تعلق سے اقوام متحدہ کا رویہ مذاکرات کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ واضح رہے کہ سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں کی فوجی لحاظ سے شکست اور فوجی اور سیاسی جارحین کے مقابل تحریک انصاراللہ اور اسکے اتحادیوں کی استقامت اس بات کا سبب بنی ہےکہ جینوا دو کے مذاکرات منعقد ہوں
اس امر پر تاکید کی جائے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمن پر حملے بند کریں اور یمن سے بیرونی افواج فوری نکل جائيں اور یمن کے لئے انسان دوستانہ امداد بھیجنے کے لئے ظالمانہ محاصرہ ختم کیا جائے۔ یاد رہے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے مظلوم یمنی قوم کا زمین، فضا اور سمندر سے مکمل محاصرہ کررکھا ہے۔
اس نکتے پر تاکید کہ سیاسی راستے ہی یمن کا بحران ختم کیا جاسکتا ہے اوراسی راستے سے یمن کے انقلاب کے اھداف ومقاصد سے حاصل کے جاسکتے ہیں اور جارحیت روکی جاسکتی ہے۔ ادھر اس مسئلے پر تاکید کہ متحارب گروہوں میں دوطرفہ مذاکرات سے ہی بحران یمن حل کیا جاسکتا ہے اور بیرونی مداخلت روکی جاسکتی ہے۔
بحران یمن کو ختم کرنے کے لئے یہ کوشش کی جائے کہ یمن کے لئے تحقیقاتی کمیٹی بھیجنے کے لئے سیاسی سماجی حلقوں نیز عالمی برادری، نیز انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے دباؤڈالا جائے۔ بیرونی جارحیت میں یمن کو ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے اور سعودی عرب سے تاوان لیا جائے۔