الوقت- پاکستان کی سیاست کا سطحی علم رکھنے والے بھی اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستانی فوج کے بغیر نہیں بن سکتی۔ بےنظیر بھٹو جب پہلی بار وزیراعظم بنیں تو اسے اس شرط پر اقتدار دیا گیا کہ وہ وزیر خارجہ کے انتخاب میں مداخلت نہیں کریں گی اور ایسے ہی ہوا انتخاب میں کامیاب ہونے والی بے نظیر اتنی مجبور تھیں کہ مرحومہ کو اس وزیر خارجہ کو تسلیم کرنا پڑا جو آمریت کے دور میں یعنی ضیا الحق اور غلام اسحاق کے دور میں وزیر خارجہ تھے۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اس وقت اور ماضی میں جو اتار چڑھاو تھا اور ہے اس کی چابی دونوں ملکوں کے عسکری اداروں کے پاس ہے۔
پاکستان کی فوج کے چف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے افغانستان اور پاکستان کے امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے ریچرڈ اولسن سے ملاقات کر کے علاقے کی سیکورٹی کی صورت حال پر گفتگو کی ہے- اس ملاقات میں جو راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر میں انجام پائی، علاقے کی سیکورٹی کی صورت حال بالخصوص افغانستان کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔
جس وقت سے گذشتہ برس نومبر میں اولسن ، پاکستان و افغانستان کے امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے منصوب ہوئے ہیں یہ پہلی بار ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کر رہے ہیں- جنرل راحیل شریف اور ریچرڈ اولسن کے مذاکرات ایسے عالم میں ہو رہے ہیں کہ ابھی کچھ دنوں پہلے پاکستانی فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنے دورہ امریکہ میں سی آئی اے کے سربراہ سمیت اس ملک کے بعض حکام سے ملاقات اور گفتگو کی -
افغانستان اور پاکستان کے امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے کی سب سے بڑی ذمہ داری دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس سے متعلق مسائل بالخصوص علاقے میں امن کے عمل کے بارے میں کابل اور اسلام آباد کے درمیان ہماہنگی پیدا کرنا ہے- البتہ پاکستان ، انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کے باعث اس ملک سے خاص توقعات رکھتا ہے کہ جو اب تک مکل طور پر پوری نہیں ہوئی ہیں -
پاکستانی حکومت نے امریکی حکومت سے با رہا یہ مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد کے ساتھ بھی ایٹمی تعاون کا ویسا ہی معاہدہ کیا جائے جیسا کہ دہلی کے ساتھ کیا گیا ہے - البتہ وہائٹ ہاؤس نے حکومت پاکستان کی اس درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حکومت پاکستان کے ساتھ ایٹمی تعاون کا معاہدہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی- واشنگٹن کی یہ پالیسی پاکستان کی ناراضگی کا باعث ہوئی ہے اور اس نے دو طرفہ تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں -
پاکستان ، علاقے بالخصوص افغانستان میں امریکی پالیسیوں کے ساتھ تعاون کر کے واشنگٹن سے ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی کا خواہاں ہے- امریکی حکام نے ان درخواستوں کے جواب میں اسلام آباد کو صرف محدود پیمانے پر کچھ فوجی ساز و سامان بیچنے پر اتفاق کیا ہے اور پاکستان کو ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی دینے سے اجتناب کیا ہے- وہائٹ ہاؤس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ یا افغانستان میں امن کے عمل میں تعاون کے جواب میں بعض مواقع پر اسلام آباد کو معطل شدہ امداد میں سے کچھ امداد فراہم کی ہے -
امریکی حکومت نے اسی طرح پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخلص نہ ہونے اور ہندوستان میں نیابتی جنگ چھیڑنے کا الزام بھی لگایا ہے- پاکستان کے خلاف امریکہ کے اس طرح کے الزامات کے برخلاف گذشتہ ایک برس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی لانا اسلام آباد کے ایجنڈے میں شامل ہے- جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کا کہ جو وہائٹ ہاؤس کی دعوت کے بغیر انجام پایا ہے اسی تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے - ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی حکومت ، افغانستان کے گہرے عدم اعتماد کے باوجود واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کی دراڑوں کو بھرنے کے لئے اس ملک کے امن کے عمل میں موثر کردار ادا کرنا چاہتی ہے- یہی وجہ ہے کہ گذشتہ مہینوں میں پاکستانی حکام نے افغانستان اور طالبان کے درمیان امن کے عمل کو بحال کرنے کے لئے بارہا آمادگی کا اعلان کیا ہے- اگرچہ اس مسئلے پر کابل نے منفی ردعمل ظاہر کیا ہے -
پاکستان کو امید ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے عمل میں کردار ادا کر کے امریکہ اور افغانتسان کے ساتھ اپنے تعلقات میں اعتماد پیدا کرنے کے ساتھ ہی پہلے سے زیادہ وہائٹ ہاؤس کی مالی اور فوجی مدد سےبہرہ مند ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان اور مریکہ کے عسکری ادارے اس پر متفق ہوں۔ -