الوقت- بیسویں صدی کا دوسرا عشرہ اہل سنت کے سیاسی افکار میں ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اس دوران آخری عثمانی سلطان کا تختہ الٹ دیا گیا اور نظام خلافت کی بساط مکمل طور پر لپیٹ دی گئي۔
رہی یہ بات کہ عثمانی خلافت کو اسلامی خلافت کے عنوان سے قبول کیا گیا تھا یا نہیں؟ اور کس حد تک اس کو عالم اسلام میں شرعی یا قانونی حیثیت حاصل تھی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ایک علیحدہ مضمون درکار ہے۔
لیکن بہر حال سلطنت عثمانیہ کے دور میں ظاہری طور پر سہی اہل سنت کے درمیان خلافت کا سیاسی نظام حاکم تھا۔
تاہم انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کی ابتدائی دو عشروں کے دوران سلطنت عثمانیہ رفتہ رفتہ زوال و انحطاط کا شکار ہونے لگی اور بالآخر 1924 ع میں عثمانی خلیفہ کی ملک بدری کے ساتھ ہی عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔
سنی دانشوروں کی نظر میں خلافت کا نظام اسلامی معاشرے کا اہم ترین ادارہ اور اسلام کا اہمترین رکن شمار ہوتا ہے۔
وہابی سلفیوں نے برطانوی استعمار کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کا تختہ الٹنے کے لئے بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں برطانوی استعمار کے آلۂ کار میں تبدیل ہوگئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے سب سے بڑے مرکز بر صغیر کے سلفی دوسروں کی نسب زیادہ تر عثمانی خلافت سے وفاداری کا اظہار کرتے رہے۔
انیسویں صدی کے نصف میں سلطنت عثمانیہ روز بروز زوال پذیر ہوتی جارہی تھی اور اس کے قلمرو میں شامل علاقے اس کے قبضے سے نکلتے جارہے تھے، لیکن ہندوستان کے مسلمان اس کو زيادہ اہمیت دیتے تھے، جن میں دیوبندی مکتب فکر کے پیرو پیش پیش تھے۔
چنانچہ ان کے ایما پر 1919 ع میں پورے ہندوستان میں "تحریک خلافت" کے نام سے ایک تحریک کا آغاز ہوا، جس کا مقصد عثمانی خلافت کا دفاع تھا۔
دوسری طرف انیسویں اور بیسویں صدی اسلامی معاشروں کے زوال اور کمزوری کا دور تھا۔
بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اسلامی ممالک رفتہ رفتہ استعماری قبضے سے آزاد ہوتے گئے، لیکن نئے سامراج نے پرانے استعمار کی جگہ لے لی۔
اسلامی تحریکوں کے آغاز کی ایک وجہ اسلامی معاشروں کے ماضی اور حال کے حالات کے درمیان موازنہ تھا۔
شان و شوکت سے بھرے ماضی کا موازنہ جو شاندار تہذیب، عظمت و بزرگی، گرانقدر آثار اور پرشکوہ اسلامی فتوحات کی یادوں سے بھرا پڑا ہے، اس کا موازنہ عالم اسلام کی موجودہ پسماندگی اور شکست و ریخت اور آمریت کے نظام کے دباؤ کی وجہ سے صلاحیتوں کے مرجھا جانے اور تباہی و بربادی کی صورتحال کے ساتھ موازنہ اسلامی ممالک بالخصوص مصر میں جو اسلام میں سیاسی نظریہ پردازی کے مراکز میں شمار ہوتا ہے، اصلاحی، انقلابی اور شدت پسند تحریکوں کے وجود میں آنے کا سبب بنا۔
مصری مفکرین نے اسلامی ممالک میں پیدا ہونے والے بحرانوں کے رد عمل میں، اسلامی اقدار اور اسلام کی زریں تعلیمات کی طرف رجوع کرنے کی تجویز دی۔
ان کے خیال میں مسلمانوں کی پسماندگی اور زوال و انحطاط کی وجہ اسلامی تعلیمات سے ان کی روگردانی تھی، لہذا وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے ماضی پر نظر ڈالتے ہوئے ایک بار پھر اپنے دینی اقدار کا احیا کرنا چاہئے۔
اس نقطۂ نگاہ سے سلف کی طرف رجوع کرنے کا وہابی سلفیت اور حتی کہ بر صغیر میں رائج سلفی رجحانات سے فرق پایا جاتا تھا۔
کیوں کہ اس نقطۂ نگاہ میں صحابہ، تابعین اور تبعۂ تابعین کے ذاتی اعمال و افعال کی پیروی کو بالکل درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا تھا، بلکہ سلف کی طرف رجوع سے مراد دین کی روح اور ان بنیادی اسلامی اصولوں کی جانب رجوع تھا، جن کا بیان قرآن و سنت میں کیا گيا ہے، لیکن عقلانیت کے عنصر اور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ہماہنگی کے ساتھ۔
دوسرے الفاظ میں مصر میں رائج سلفی رجحانات کا مقصد رجعت پسندی اور ماضی کی طرف رجوع نہیں تھا، بلکہ یہ مسلمانوں کے اصلی تشخص کی جانب رجوع اور زمانے کے حالات سے بہرہ مند ہونے کے مفہوم کے حامل تھے۔
لہذا اگر ہم مصر کی اسلام پسندی کو سلفیت کا نام دے بھی دیں تو مسلمہ طور پر اس میں اور اعتقادی سلفیت میں، جس کا اہمترین مصداق وہابی تکفیری سلفیت ہے بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں مصر کی سلفیت کا نصب العین اسلامی حکومت کا قیام اور عالم اسلام کی ترقی و پیشرفت کے لئے راہوں کا تعین ہے، جب کہ تکفیری سلفیوں کا مطمح نظر دین کے بارے میں بدعت پر مبنی مفہوم کا رواج ہے، جس کے فروغ کے لئے وہ ہر حربہ آزماتے ہیں، اس سلسلے میں وہ عام مسلمانوں کی تکفیر سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔(جاری ہے)