الوقت- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدرڈاکٹر حسن روحانی نے فرانس کے چینل دو اور ریڈیو یورپ ون کے ساتھ گفتگو میں ایٹمی معاہدے پر ایران کی پابندی پر تاکید کرتے ہوئےکہا ہے کہ ایران کی جانب سے اس معاہدے کی پابندی کا انحصار گروپ پانچ جمع ایک کی جانب سے اس معاہدے کی پابندی کئے جانے پر ہے۔
اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے کے دائرہ کار میں اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنے کے سلسلے میں پرعزم ہے لیکن اعتماد سازی اور وعدوں پر پابندی فریقین کے لئے ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ اگر گروپ پانچ جمع ایک نے اپنے وعدے پرعمل کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایران بھی اس کے متوازی قدم اٹھائے گا۔ اہم مسئلہ اس حقیقت کوتسلیم کرنے سے عبارت ہے کہ ایران نے کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کی ہے اور نہ اب کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران ہمیشہ سے ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کا خواہاں رہا ہے لیکن یورپ نے اس سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کرنےکی کوشش کی۔ اسکی تازہ مثال یہ ہے کہ حال ہی میں کئی امریکی نمائندوں نے ایران کی غیرایٹمی پابندیوں پر عمل درآمد سے کمپنیوں کو معاف کرنے کے لیے امریکی صدر کے اختیارات کے موضوع پر ہونے والے اجلاس میں ایران پر دباؤ جاری رکھنے کے لیے پابندیوں کے نظام کو باقی رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس اجلاس کی صدارت کرنے والے پیٹر روسکام نے اجلاس کے آغاز میں علاقے میں بقول ان کے ایران کے تخریبی اقدامات کے خلاف اقدام کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکہ میں سافٹ وار کے اداروں میں سے ایک ادارے ڈیموکریسی کے دفاع کی فاؤنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر مارک ڈایوویٹز نے بھی اس اجلاس میں ایران کو دہشت گردی کا اصلی ترین حامی قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کو غیرایٹمی پابندیوں کے ساتھ ایران پر دباؤ کو برقرار رکھنا چاہیے۔
انھوں نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے سلسلے میں ایران کے لیے ایک صبر آزما راستہ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ کانگرس کو غیرایٹمی پابندیوں کو کہ جو ایران کی وسیع پیمانے پر سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے وضع کی گئی ہیں، باقی رکھنا چاہیے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی اپنی بدھ کی اشاعت میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران کے خلاف سابقہ پابندیاں اس ملک کے حکمراں نظام کو تبدیل کرنے کے لیے کامیاب نہیں رہی ہیں، لکھا ہے کہ چھتیس سال کی پابندیوں سے ایران میں حکمراں نظام تبدیل نہیں ہوا، ان پابندیوں نے نہ صرف علاقے میں ایران کے طرزعمل میں کوئی بڑی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے بلکہ اسے بدتر کیا ہے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ اس عمل میں تبدیلی کے لیے ممکنہ طور پر تہران کے ساتھ تعاون اور چھڑی کا کم اور گاجر کا زیادہ استعمال ضروری ہے کہ جس میں اقتصادی تعاون، غیرملکی امداد، سرمایہ کاری، تجارت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی وغیرہ شامل ہے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے نقطہ نظر سے پیش کی جانے والی تبدیلی گزشتہ پابندیوں میں ان ہی مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے کا راستہ ہو سکتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے نقطہ نظر سے مشترکہ جامع ایکشن پلان نے مغرب کے ساتھ ایران کے تعلقات کو مضبوط بنانے کا راستہ کسی حد تک ہموار کر دیا ہے اور اس سمجھوتے نے کہ جس پر عمل درآمد کے لیے ابتدائی کام شروع ہو چکا ہے، مہینوں قبل سے یورپ، ایشیا اور دیگر ممالک کے وفود کو تہران کا دورہ کرنے اور تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور یہ امر علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے حل میں ایران کے کردار کو مضبوط بنا سکتا ہے۔
لیکن اس سلسلے میں امریکہ پر بےاعتمادی اور شکوک و شبہات کم نہیں ہیں اور اس بےاعتمادی کی وجہ امریکی حکام کی سازشیں، بہانے بازیاں اور وعدہ خلافیاں ہیں کہ جن پر مختلف چینلوں سے ایک دن کانگرس میں اور دوسرے دن صیہونیوں کے ساتھ آیپیک کی لابیوں میں عمل کیا جاتا ہے۔
یہ طرزعمل اور رویہ ایسے حالات میں ہے کہ جب امریکہ علاقے میں درمیانی مدت اور طویل مدت مقاصد کو بدستور اپنی خارجہ پالیسی میں پیش نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اس پالیسی پر عمل درآمد میں اسے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
اس بنا پر پابندیوں کے خاتمے سمیت بعض موضوعات کے بارے میں اسے اپنی ذمہ داری کو واضح کرنا چاہیے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران امریکہ نے وسیع اور نام نہاد مفلوج کر دینے والی پابندیوں سمیت تمام سیاسی و اقتصادی ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔ یہاں تک کہ امریکی حکام اعتراف کرتے ہیں کہ پابندیوں پر اصرار امریکہ کو الگ تھلگ کر دے گا۔
امریکہ ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کا واحد فریق نہیں ہے بلکہ اس میں پانچ دیگر ممالک یعنی روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی شامل ہیں اور وہ اپنے وعدوں پر قائم ہیں۔ اس تعاون کے جاری رہنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کو مشترکہ جامع ایکشن پلان میں کیے گئے اپنے وعدوں سے پھرنے کے لیے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے ماضی سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ واشنگٹن نے گزشتہ ایک عشرے کے دوران اسٹریٹجک پالیسیوں پر عمل درآمد کیا ہے کہ اس پالیسی کا ایک حصہ پابندیوں اور ایٹمی مسئلے پر مرکوز رہا ہے۔ ان مواقف اور اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نئے مواقع کی تلاش میں ہے تاکہ پابندیوں کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے نئے اقدامات کرے اور ایران کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت کے بارے میں دعووں اور میزائلی دفاع کی طاقت پر تشویش یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے دعووں کی بنیاد پر ایران پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی پر عمل درآمد کرے۔ البتہ صرف امریکہ ہی ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کا فریق نہیں ہے بلکہ فرانس سمیت دوسرے ممالک بھی اس معاہدے میں شریک ہیں جو اپنے وعدوں پر عمل کرنے کی تاکید کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے یہ جو کہا ہے کہ ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کا انحصار فریق مقابل کی جانب سے اس کی پابندی پر ہے تو انہوں نے ماضی اور حال کے حقائق اور تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بیانات دیئے ہیں۔