الوقت کی رپورٹ کے مطابق برصغیر چونکہ سنہ انیس سو سینتالیس سے قبل برطانیہ کی نوآبادیات تھا اس لئے دونوں ملکوں کے درمیان خصوصی تعلقات قائم رہے ہیں۔ لیکن نریندرمودی کے دورہ برطانیہ کا سب سے بڑا ہدف دفاعی اور سیکورٹی تعاون کی تقویت کی کوشش ہے۔
بھارت اپنے دو ایٹمی حریف ممالک یعنی چین اور پاکستان کے مقابلے کے تناظر میں یورپی ممالک خصوصا برطانیہ کے ساتھ فوجی اور سیکورٹی تعاون بڑھانے کے درپے ہے۔ اسلام آباد کے بھی لندن کے ساتھ اچھےتعلقات ہیں۔ اس لئے بھارتی حکومت نے حال ہی میں برطانیہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں انجام دینے کے سمجھوتے کے ذریعے لندن کے ساتھ اپنے سیکورٹی اور دفاعی تعاون کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔
دریں اثناء بھارت کی حکومت کو برطانیہ کی حکومت سے یہ توقع ہے کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھائے گی۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت چونکہ بھارتی فوجی برطانیہ کی مدد سے کشمیر میں داخل ہوئے تھے اور وہ کشمیر کے منصوبے پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ بنےتھے اس لئے نئی دہلی کو توقع ہے کہ لندن مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں بھارتی حکومت کے موقف کی حمایت کر کے اس مسئلے کو بھارت کے مفاد میں حل کرے گا۔