الوقت- ایک اہم مسئلہ جو آج کل عالمی حلقوں میں گرما گرم بحث کا موضوع بنا ہوا ہے بحران شام میں روس کی مداخلت اورشامی صدر بشار اسد کے مخالفین کے ٹھکانوں پر اس کے فضائي حملے ہیں۔ شام اور یوکرین میں فوجی مداخلت کرنے کا کرملین حکام کا فیصلہ قابل غور ہے۔ یوکرین کا بحران دوہزار چودہ میں شروع ہوا تھا اور اس میں روس کی فوجی مداخلت انیس سو اڑسٹھ میں پراگ اسپرینگ سے شباہت رکھتا ہے۔ دونوں بحرانوں کی وجہ سے روس کو اپنے حلیف ملکوں کے ہاتھ سے جانے کا خوف لاحق ہے۔ رہی بات یوکرین کی تو وہ روس کا ہمسایہ بھی ہے اور اس سے روس کی سرحدیں ملتی ہیں۔ روس ان دونوں بحرانوں میں سیاسی اور اقتصادی حربے استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے اسی وجہ سے اس نے فوجی حربہ استعمال کیا ہے۔ پراک اسپرینگ میں سابق سوویت یونین کی سیاسی کوششیں ناکام رہی تھیں اور آخر کار وار سا معاہدے کے ملکوں نے چکوسلواکی پر حملہ کردیا ۔ یوکرین بھی جو کئي برسوں سے اقتصادی مسائل کا شکار ہے اس کے سابق صدر یانو کوویچ نے اپنے ملک کے مسائل حل کرنے کےلئے یورپی یونین اور روس کے ساتھ مذاکرات شروع کئے۔ مذاکرات کے نتیجے میں یورپی یورپی یونین نے یوکرین سے اقتصادی اصلاحات کے لئے بجٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن یانو کوویچ نے روس کی طرفداری کرتے ہوئے روس سے چند ارب ڈالر کا مختصر سا قرضہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے یورپی یونین چراغ پا ہوگئي اور یوکرین میں مظاہرے شروع ہوگئے جس کے نتیجے میں یانو کوویچ روس فرار ہوگئے۔ اس کےبعد روس نے جزیرہ نمائے کریمہ میں وسیع پیمانے پر فوجی بھیج دئے اور اسے روسی فیڈریشن سے ملحق کرلیا۔ البتہ روس نے اس علاقے کو ملحق کرنے سے پہلے یہاں استصواب رائے کروایا تھا۔ یہ یوکرین کے لئے ایک سبق اور ایک طرح کی تنبیہ تھی۔ روس نے یہی کام کچھ برسوں قبل جارجیا کے ساتھ بھی کیا تھا لیکن اس مرتبہ مغربی ملکوں نے روس کو کڑا جواب دیا، مغربی ملکوں نے نیٹو کی افواج کو الرٹ کرنے کے علاوہ روس پر کچھ اقتصادی پابندیاں بھی عائد کردیں۔ اس طرح روس اور مغربی ممالک میں ایک بار پھر کشیدگي اپنے عروج کو پہنچ گئي۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ یوکرین کی وجہ سے روس جو اس وقت پابندیوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے کس حد تک شام میں اپنی فوجی مداخلت کو وسعت دیتا ہے۔یہ کہا جاسکتا ہےکہ روسی حکام یہ چاہتے ہیں کہ کم از کم شام کے بحران کو یوکرین کے بحران میں مراعات حاصل کرنے کے لئے استعمال کرسکیں۔ اس تناظر میں یہ دیکھا جاسکتا ہےکہ اگر مغرب اور امریکہ روس کے خلاف اپنی پابندیاں ختم کردیں اور یوکرین کے بحران کو حل کرنے پر راضی ہوجائيں تو روس شام میں اپنے حملے کم کرسکتا ہے یا بالکل ختم بھی کرسکتا ہے لیکن اگر روس یہ دیکھ رہاہوں کہ شام کے ٹکڑے ہونے جارہے ہیں تو وہ اس مسئلے کو یوکرین کے بحران کے لئے ترپ کی چال میں تبدیل کرکے نیز شام میں فوجی کاروائياں بڑھا کر شام کے بطن سے نکلنے والے ممکنہ ملکوں میں اپنا حصہ ضرور چاہے گا۔ اگر روس دوسری جنگ عظیم کے بعد کے واقعات کا اسٹراٹیجیک لحاظ سے جائزہ لے تو شام میں بھرپور فوجی مداخلت جاری رکھے گا کیونکہ شام میں روس کے منصوبوں کی کامیابی مغربی ملکوں کی شکست ہوگي۔ شام میں روس کی مداخلت نے بحران کے تمام فریقوں کے مواقف پر اثر چھوڑا ہے۔ اس سے بشار اسد کے مخالف کمزور ہوئے ہیں، شام کی مرکزی حکومت کو تقویت ملی ہے اور امریکہ نے اس کے پیش نظر اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے۔ امریکہ کی جانب سے شام میں بشار اسد کے مخالف نام نہاد اعتدال پسند دھڑوں کی فوجی ٹریننگ کو ترک کرکے کردوں کو بشار اسد کے خلاف ہراول دستے کا مقام دینا روسی مداخلت اور اقتدار کے اس خلا کا نتیجہ ہے جو وقت گذرنے کےساتھ ساتھ سامنے آئے گا۔ مغربی ممالک کبھی بھی اس بات پر راضی نہیں ہونگے کہ یہ خلا بشار اسد کی فوج پر کرے۔ دوسرے الفاظ میں پوتین جانتے ہيں کہ وہ مغربی ملکوں کو کردوں کےساتھ تعاون کرنے سےنہیں روک سکتے اور نہ ہی کردوں پر بمباری کرسکتے ہيں لھذا وہ یہ کوشش کررہے ہيں کہ کرد مغرب کے محاذ میں نہ جائيں اسی وجہ سے وہ کردوں کا اعتماد بحال کرکے انہیں اپنی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں۔ مجموعی طور سے کہا جاسکتا ہےکہ شام میں روس کی مداخلت بحران شام میں ملوث فریقوں کے اقدامات میں تیزی آنے نیز ہر طرح کے ممکنہ منصوبے پر عمل درامد کا سبب ہے۔