الوقت۔ بعض اوقات ممالک کا اسٹریٹیجک کردار ہوتا ہے، اور بعض اوقات اسٹریٹیجک محل وقوع، اور کبھی وہ ملک خود اسٹریٹیجک طاقت کا حامل ہوتا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات میں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اسٹریٹیجک طاقت ہے اور پاکستان اسٹریٹیجک کردار کا حامل ہے کہ جو امریکی جنگی حکمت عملی اور دوسرے لفظوں میں دہشتگردی کیخلاف جنگ میں موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان بھی اپنے اس کردار کا فائدہ اٹھاتا ہے، اور اسکا خیال ہے کہ اگر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو پاکستان کی حمایت حاصل نہ ہو تو دہشتگردی کیساتھ اسکا مقابلہ دشوار ہو جائے گا۔ اسی بنا پر اگر پاکستان چاہے تو امریکہ کے دہشتگردی سے مقابلے کے فارمولے میں خلل پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان اپنی موجودہ پوزیشن اور جگہ کے لحاظ سے امریکا کو مشکل سے دوچار کر سکتا ہے۔ اس دوران دونوں ممالک کا ایک دوسرے پرعدم اعتماد اور اسٹرٹیجک مفادات کا مختلف ہونا ہی انکے طویل مدتی تعلقات کے درمیان عدم تعاون کا باعث بنا، کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو ٹیکنیکل بنیادوں سے دیکھا، یہ مسئلہ باعث بنا کہ پاکستان کبھی بھی امریکہ کو قابل اعتماد شریک نہیں سمجھتا۔ ان حالات میں صرف ایک چیز جس نے پاکستان اور امریکہ کو نزدیک کیا اور وہ مسئلہ افغانستان تھا۔ ۱۹۸۰ء میں افغانستان میں جنگ کے زمانے میں پاکستان کا امریکہ سے مالی امداد کا حصول، پاکستان کے ٹیکنیکل مفادات میں شامل تھا، اسکے علاوہ امریکہ کی ہندوستان کے مقابلے میں افغانستان کی حمایت، اور ملک کے داخلی امور میں ضیاءالحق کی فوجی آمریت کی طاقت میں اضافہ، افغانستان کی جنگ، یہ سب باتیں باعث بنیں کہ پاکستان، امریکہ کی حمایت کرے۔
دوسری جانب امریکہ کا بھی اسلامک ویژن اچھا نہیں، لیکن جنگ سرد کی ضروریات اور سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء کے لئے پاکستان کی مدد سے افغانستان میں اسلامی طرز پر جہادی گروہوں کی بنیاد رکھی۔ لیکن۸۰ء کی دہائی کے اواخر میں افغانستان سے سوویت فوج کے انخلاء کے بعد سے امریکہ کی خارجی سیاست میں پاکستان کی پہلے جیسی اہمیت نہ رہی۔ دوسری جانب جنگ کے ختم ہوتے ہی امریکی ورلڈ اسٹرٹیجک پالیسی میں بھی تبدیلی آگئی، اور ان کی جگہ جدید ترجیحات نے لے لی، بالخصوص جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو کے ساتھ مقابلے کی سیاست، بقول امریکہ کے، دہشتگردی کا مقابلہ۔ اور اس سلسلے میں انڈیا امریکہ کے اتحادی کی شکل میں سامنے آیا حالانکہ پاکستان کے اسٹرٹیجک اہداف میں ہندوستان کے ساتھ توازن کو برقرار رکھنا، جوہری ہتھیاروں کا حصول، اور کشمیر و افغانستان میں جہادی گروہوں کی حمایت شامل تھا۔ اور یہ امر امریکہ کے طویل مدتی اسٹریٹیجک اہداف سے تضاد رکھتا تھا۔ نتیجے کے طور پردونوں ممالک کے تعلقات میں سردمہری آگئی، کچھ اسطرح کہ ۱۹۹۸ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے بعد امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں لگا دیں۔
۱۱ ستمبر ۲۰۱۱ء کے واقعہ کے بعد امریکہ کی دہشتگردی کیخلاف جنگی اسٹرٹیجی واضح ہونے کے بعد، پاکستان دوبارہ امریکہ کیلئے اہمیت اختیار کر گیا، نتیجے کے طور پر دونوں ممالک میں وسیع پیمانے پر تعاون ہونے لگا، لیکن اس بار بھی دونوں کے اسٹریٹیجک مفادات جدا تھے، کیونکہ امریکہ کا مقصد افغانستان میں طالبان کے جہادی سیٹ اپ کو شکست دینا تھا۔ پاک افواج جو افغانستان کے موضوع پر بہت تاثیر گذار ہیں، ایسے گروہوں کو افغانستان میں اپنے نفوذ اور ہندوستان کی سیاست خارجہ کے مقابلے میں بہترین ہتھیار اور سرمایہ سمجھتی ہیں، اور انڈیا پر کنٹرول کی نظر سے رکھتی ہیں۔ پاکستان امریکہ اسوقت اکھٹے ہوئے ہیں جبکہ ہر دو مختلف کاز رکھتے ہیں، دوسری جانب ۲۰۰۲ء سے دونوں ممالک کے روابط عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ گو کہ اس عدم اعتماد کو اکثر چھپانے کی کوشش کی گئی۔ دونوں ممالک کے روابط کی پیچیدگی کو دو طریقوں سے جانا جا سکتا ہے، اول یہ پاکستان امریکہ سے سب سے زیادہ فوجی و غیر فوجی مالی مدد دریافت کرنے والا ملک ہے، گذشتہ سالوں میں ٧.٥ ارب ڈالر ترقیاتی امداد بل کیری، لوگر، برمان اور ایک بہت بڑے اسلحہ کے خریداروں کے توسط لی۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اس سال تک پاکستان کو ۱۱ ارب ۲۰۰۱ ڈالردہشتگردی کی روک تھام کے لئے فوجی امداد دی گئی، لیکن اس تمام امداد کے باوجود ۲۰۱۰ ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ٦٠% پاکستانی امریکہ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اور ٦۵% امریکہ کو اپنے ملک کے لئے عسکری خطرہ سمجھتے ہیں، حتٰی بعض پاکستانی تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ پاکستان کے کافی جنرلز اور کمانڈر ملکی حدود میں امریکی اہداف کیلئے مشکوک سرگرمیوں میں مشغول ہیں، انکا خیال ہے کہ اس لحاظ سے امریکہ پاکستان کے لئے ہندوستان سے بڑا خطرہ ہے۔
ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نکتہ پر توجہ رہے کہ پاکستان اور امریکہ کو ہمیشہ ایکدوسرے کی ضرورت رہی ہے، یہ امریکہ کو اس خطے میں اسے ایک تعاون کرنیوالے ساتھی کی ضرورت ہے، اسلئے وہ پاکستان کے اینٹیلیجنس سسٹم کی خطاوں سے چشم پوشی کرتا چلا آیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان بھی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، اور اپنی بقاء کے لئے امریکہ کے مطالبات کے آگے جھکنے پر مجبور ہے۔ اس لحاظ سے امریکہ، پاکستان سے روابط میں کوئی تبدیلی نہیں لا رہا۔ وہ ان شرایط کو اس وقت تک حفظ کرنا چاہتا ہے جبتک مسئلہ افغانستان میں اسے پیشرفت حاصل نہیں ہوتی۔ امریکہ کی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس خطے میں پاکستان کا متبادل کوئی ملک نہیں ہے، لہذا امریکہ پرانے ساتھی کو چھوڑ کر کسی اجنبی پر اعتبار کرنے کے حق میں نہیں۔ وہ پاکستان کو خطے میں اپنے اہداف کے حصول کیلئے اپنا اہم ساتھی سمجھتا ہے، اور اسی ملک کے ذریعے خطے میں اپنے نفوذ کو قائم رکھ سکتا ہے۔ حاصل گفتگو یہ کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مشکلات کے باوجود ابتک پاکستان، امریکہ کیلئے دوسرے تمام ممالک سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کا بھی یہی خیال ہے کہ امریکی حمایت کے بغیر پاکستان الگ تھلگ، اور بے اعتبار ہوجائیگا۔ اسی لئے وہ امریکہ کی خواہشات پورا کرنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ بعض پاکستانی حکام امریکہ کے بیجا مطالبات پر ناراض ہیں، لیکن پاکستان کے سرکاری حکام اس ملک کی اسٹریٹیجک ضروریات کو مدنظر رکھنے کے حق میں ہیں تاکہ ہر قیمت پر امریکہ کے ساتھ رہیں، اور اس کوتاہی و غفلت کا ازالہ کر سکیں، کیونکہ پاکستانی حکمرانوں کا اس بات پر یقین ہے کہ امریکی امداد کے بغیر ملک کو نہیں چلایا جا سکتا۔