الوقت کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ ہفتے کے روز بحرین پہنچے تھے جہاں انہوں نے سلمان بندر گاہ کے قریب مشرق وسطی کے علاقے میں برطانیہ کے ایک بحری اڈے جفیر نیول بیس کی تعمیر کے منصوبے کا افتتاح کیا۔ یہ بحری اڈہ 1971میں اس علاقے سے برطانیہ کے انخلا کے بعد تعمیر ہونے والا سب سے بڑا برطانوی بحری اڈہ ہوگا۔ روزنامہ انڈی پینڈینٹ کے مطابق بحرین میں برطانوی بحری اڈہ کا قیام دراصل خلیج فارس کے اس چھوٹے سے ساحلی ملک کے حکمرانوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر برطانوی حکام کی خاموشی کا انعام ہے۔ ایک اور برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے اس اقدام کو خلیج فارس کے علاقے میں واپسی کے لئے لندن کی پالیسیوں میں آنے والی تبدیلی کی علامت قرار دیا ہے۔
ایسے وقت میں جب مشرقی وسطی کے عرب حکام اور بادشاہتیں واشنگٹن کی چھتری کو اپنی سلامتی اور امریکی جنگی طیاروں اور طیارہ بردار جہازوں کی تعیناتی کو اپنی بقا کا ضامن سمجھتی ہیں، وائٹ ہاؤس نے اپنی مشرق وسطی پالیسی میں تبدیلی کرکے، اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اپنے آخری طیارہ بردار بحری جہاز کو باہر نکال لے اور یوں یہ علاقے برسوں سے گھس بیٹھے اور بن بلائے مہمانوں سے خالی ہوجائے۔ یہ بات بد فطرت اور بوڑھے برطانوی سامراج کے بھیڑیا صفت سیاستدانوں کی نظر میں بہترین موقع ہے کہ دنیا کے اس اسٹریٹیجک خطے میں امریکہ جگہ پر کرلی جائے۔
خطے کے توازن میں ایران کے ابھرتے ہوئے کردار اور علاقائی ذمہ داریوں کو قبول کرلینے نیز جامع ایٹمی معاہدے کے بعد ایران اور مغرب کے درمیان کشیدکی میں کمی، خطے میں ایرانو فوبیا کا اثر زائل ہونے کا سگنل دے رہی تھی لیکن بحرین میں بحری اڈے کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں برطانوی وزیر خارجہ کی شرکت سے ، خطے کے ملکوں کے استحصال کے طویل المدت منصوبے کا پردہ فاش ہوگیا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ برطانوی سیاستداں ایک بار پھر خطے کے نااہل اور پٹھو حکمرانوں کے تعاون سے "لڑاؤ اور حکومت کروں" کی دیرینہ پالیسی سے کام لیتے ہوئے"سامراج کی خوفناک چھتری" پھر سے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
روزنامہ انڈی پینڈینٹ نے غیر ارادی طور پر برطانوی حکمرانوں کی بدنیتی کا پردہ فاش کرتے ہوئے لکھا ہے، انسانی حقوق کے لئے جدو جہد کرنے والوں نے بحرین میں برطانیہ کے جدید بحری اڈے کا نام جفیر رکھے جانے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ نام بحرین پر برطانونی سامراجی قبضے کی یاد دلاتا ہے اور مذکورہ بحری اڈے کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب دراصل سامراجی میراث کا جشن تھی۔
روزنامہ ڈیلی ٹیلی گراف نے لکھا ہے کہ یہ اقدام سن 1971 میں نہر سوئز کے مشرقی علاقے میں برطانوی فوجی اڈے بند ہونے کے بعد، لندن کی علاقائی پالیسیوں میں تبدیلی کی علامت ہے اور بحرین کی حکومت نے اس بحری اڈے کی تعمیر کے اخراجات کا بڑاحصہ یعنی 23 ملین ڈالر ادا کئے ہیں جبکہ حکومت برطانیہ اس کے رواں اخراجات برداشت کرےگی۔
بحرین میں برطانیہ کی سفیر ایان لنڈسی اس بحری اڈے کے بارے میں کہتی ہیں کہ ہم یہاں اپنے جدید ترین بحری بیڑے خاص طور پر طیارہ بردار جہاز تعینات کرسکیں گے۔
برطانیہ کا شمار دنیا کے قدیم تری، منظم ترین اور دائمی سامراجی طاقتوں میں ہوتا ہے۔ تاریخی دستاویزات اور شواہد کے مطابق برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جس کے سامراجی تسلط کا دور سولہویں صدی سے جا ملتا ہے اور خاص طور سے اس وقت جب سن 1600 میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی تھی۔
سیاسی ماہرین، اقتصادی بحران سے نکلنے کے بعد برطانیہ کی معاشی صورتحال میں بہتری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ، برطانیہ کی خارجہ پالیسی کا دائرہ وسیع ہوگا اور اس کے یورپ سے باہر تک پھیلنے کی توقع ہے۔ برطانیہ اس بات کی بھی کوشش کرے گا کہ مشرق وسطی میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے جارحانہ پالیسی اختیار کرے۔