الوقت- امریکہ اور ایران نظریاتی حوالے سے ایک دوسرے کے اتنے مخالف ہیں کہ ان کا تمام موضوعات پر اتفاق ایک ناممکن امرہے اور اس بات کا اعادہ امام خمینی اور رھبر انقلاب اسلامی کے فرامیں میں باآسانی درک کیا جاسکتا ہے۔امریکہ بھی اپنے ہر اقدام میں ایران یعنی ایران کے انقلابی نظریئے کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ہے۔ اور اسکے لئے اسکے پاس اہم ترین ہتھیار ایرانو فوبیا جس سے اس نے خطے کے ممالک کو ایران سے قریب آنے سے روکا ہوا ہے حال ہی میں امریکی تھنک ٹینک ہیرٹیج ( Heritage )نے سنہ دو ہزار سولہ میں امریکی فوج کی صلاحیتوں کے معیارات اور اس کے خطرات سے متعلق اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مشرق وسطی میں جہاں ایک طرف مطلق العنان حکومتیں قائم ہیں وہاں دوسری طرف اس علاقے کو بدامنی کا شکار کرنے والے علاقائی گروہ بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے امریکی فوج کو اس خطے میں جنگوں اور لڑائیوں کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس خطے میں تخریب کار گروہوں کا دائرہ بھی پھیلتا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر ایران اور مشرق وسطی میں موجود مختلف جہادی گروہ فوجی طاقت کے استعمال کے لئے زیادہ فزیکل صلاحیتیں حاصل کر لیں تو امریکی سلامتی کے لئے موجودہ دور سے کہیں زیادہ بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ یہ رویہ اور موقف ایسی حالت میں اختیار کیا جا رہا ہے کہ جب امریکہ کو خطے میں درپیش مشکلات کی اصل وجہ اس کی اپنی متضاد پالیسیاں ہیں جن کے سبب امریکی خارجہ پالیسی میں سیکورٹی پوزیشن بہت کمزور ہو چکی ہے۔ دہشت گرد گروہ داعش اور انتہاپسندی کے مقابلے کے سلسلے میں امریکہ کی بوکھلاہٹ امریکہ کو درپیش سب سے بڑی مشکل ہے جس کے بارے میں اسے اپنا موقف واضح کرنا ہوگا۔ البتہ داعش اور انتہا پسندی کا بیج بھی خود امریکہ نے ہی عراق اور شام میں بویا ہے۔ گزشتہ عشرے کے دوران امریکہ نےخطے میں اپنے مفادات کے تحفظ اور پیشگی اقدام کی ڈاکٹرائن کے تحت بہت ہی زیادہ مداخلت کی اور تمام سیاسی، اقتصادی اور فوجی امکانات و وسائل استعمال کئے۔ لیکن وہ خطے میں کوئی پائیدار حکمت عملی پر عمل پیرا نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ پینٹاگون کے حکام اس بات کے معترف ہیں کہ ایشیا، افریقہ اور یورپ کو ایک دوسرے سے ملانے والے مشرق وسطی پر ان کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے۔ امریکہ نے خطے میں جو بدامنی پھیلا رکھی ہے وہ اس کے بارے میں موثر حکمت عملی پیش کرنے پر بھی قادر نہیں ہے حالانکہ وہ مشرق وسطی کو اپنے اثر و رسوخ اور اپنے اسٹریٹیجک مفادات والا خطہ جانتا ہے۔ اور اس کا خیال ہے کہ یورپ کو ایشیا پر اپنے اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مغربی ایشیا میں امریکہ کی سیکورٹی ڈاکٹرائن ناکام ہو چکی ہے، خطے کی صورتحال بھی بدل چکی ہے اور انتہا پسندی میں آنے والی شدت کی وجہ سے امریکہ کے علاقائی اتحادیوں کی اندرونی صورتحال خطرات سے دوچار ہو چکی ہے۔ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ کو حتی اپنے اسٹریٹیجک مفادات کے تحفظ میں بھی بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔امریکہ نے حالیہ ایک عشرے میں ٹیکٹیکل پالیسیز (Tactical policies) اختیار کی ہیں جن میں سے بعض پالیسیوں کو امریکی صدر باراک اوباما کے پہلے عہد صدارت میں تبدیلی کی پالیسی سے تعبیر کیا ہے۔ باراک اوباما نے بھی خطے میں امریکہ کی براہ راست مداخلت کی حمایت کی ہے ۔ البتہ امریکہ بقول اس کے مشرق وسطی اور خلیج فارس میں اپنے مفادات کے تحفظ کا کردار ادا کر رہا ہے۔امریکہ پہلے یہ کردار خود ادا کرتا تھا لیکن اب وہ یہی کردار دوسروں سے ادا کروا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اب داعش کے بحران اور خطے کی بدامنی میں خود کسی طرح کا کردار ادا کرنے کے بجائے دوسروں کو اس میں الجھانے کی ترکیبیں اور سازشیں تیار کرتا رہتا ہے۔ لیکن حالات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اس ساری صورتحال کو صحیح طور پر سمجھ ہی نہیں پایا ہے۔اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ امریکہ خطے میں قیام امن کے لئے کوشاں نہیں ہے بلکہ وہ مشرق وسطی میں طاقت کے سلسلے میں نئے اقدامات انجام دے کر مغربی ایشیا سے متعلق اپنی اسٹریٹیجی کو بین الاقوامی اسٹریٹیجی بنا کر پیش کرنے اور اسی کی بنیاد پر اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے درپے ہے۔سیکورٹی تعاون کی تقویت، خلیج فارس میں امریکہ کے اسٹریٹجک فوجی اڈوں کے اخراجات پورے کرنا، فوجی معاہدوں کو حتمی شکل دینا اور خطے کے بعض عرب ممالک خصوصا سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت میں اضافہ امریکہ کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ایرانو فوبیا اور ایران کو خطرہ ظاہر کرنے کی روش سے فائدہ اٹھانے کے ذریعے خطے میں قیام امن کے سلسلے میں ایران کے کردار کو ختم کرنے اور خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ بڑھانے کی اسٹریٹیجی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ایران کے بارے میں امریکہ کی رائے اور امریکی تھنک ٹینک ہیرٹیج ( Heritage ) کی سنہ دو ہزار سولہ میں امریکی فوج کی صلاحیتوں کے معیارات اور اس کے خطرات سے متعلق تجزیاتی رپورٹ کا اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اور اسکا بنیادی ہدف ایرانو فوبیا کو بڑھا کر ایران کی محبوبیت اور تعمیری اثر کو ختم یا کم کرنا ہے ۔