الوقت- یمن کے خلاف جارحیت کے سلسلے میں سعودی عرب کے ساتھ اسرائيل کے تعاون کی بہت سی خبریں حالیہ دنوں کے دوران منظر عام پر آچکی ہیں۔ ابھی المخا کے علاقے میں شادی کی تقریب کے دوران یمنی عوام کے قتل عام میں صیہونیوں کی شرکت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ یمن کے خلاف جارحیت کے سلسلے میں سعودی اور صیہونی حکام کے تعاون کے نئے پہلو منظر عام پر آگئے ہیں۔ اس سلسلے میں العالم ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کی فضائیہ کا ایک مسافربردار طیارہ بوئینگ سات سو سینتالیس اسلحہ ، میزائل اور دوسری جنگی ساز و سامان لے کر سعودی عرب کے علاقے عسیر میں واقع فوجی چھاؤنی خمیس مشیط میں اترا۔ جس کا مقصد سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی حمایت اور مدد کرنا ہے۔ اس اسلحے کو یمن کے مختلف علاقوں پر حملوں کے دوران استعمال کیا جائے گا۔ یمن کے ذرائع نے بھی تاکید کی ہے کہ صیہونی حکومت نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی حمایت نیز ان کو اسلحہ اور میزائل سپلائی کرنے کے لئے خمیس مشیط میں واقع خالد بن عبدالعزیز ایئربیس تک فضائی راستہ بنا لیا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائيل کو یمن کے مستقبل پر کیوں تشویش لاحق ہے اور وہ یمن پر جارحیت کے سلسلے میں سعودی عرب کے ساتھ تعاون کیوں کر رہا ہے؟
اسرائیل کے لئے یمن ہمیشہ سے ایک خاص مقام کا حامل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر باب المندب کی سیکورٹی اسرائیل کے لئے خطرے میں پڑ جائے تو اسے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حال ہی میں سعودی عرب کے حمایت یافتہ دہشت گردوں نے صیہونی حکومت کی حمایت کے ذریعے آبنائے باب المندب پر اپنے مکمل قبضے کی خبر دی تھی۔ البتہ یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ نے فورا ہی اس خبر کی تردید کر دی تھی۔ صیہونی فوج کی کمیٹی کے چیئرمین نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج کی نظریں باب المندب پر لگی ہوئي ہیں۔ ان بیانات کے بعد یہ حملہ کیا گيا تھا۔ صیہونی حکومت کے مال بردار بحری جہاز آبنائے باب المندب سے ہی گزرتے ہیں اور یہ بحیرہ احمر تک اس کی رسائی کا ذریعہ ہے۔ بحر ہند کے آخری سرے سے اسرائیلی بندرگاہ ایلات تک کے بحری راستے میں آبنائے باب المندب اسرائيل کے لئے سب سے زیادہ اہم گزرگاہ ہے۔ انقلاب یمن کے بعد سے آبنائے باب المندب اور یمن کی سمندری حدود میں اسرائیل کے بحری جہاز غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ آبنائے باب المندب کی چوڑائی چونکہ تقریبا تیس کلومیٹر ہے اس لئے اسرائیل کے بحری جہازوں کو آسانی کے ساتھ نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ الرائی الیوم نے اس سلسلے میں رپورٹ دی ہے کہ ایک اسرائيلی عہدیدار نے، کہ جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے، کہا ہے کہ اسرائیل کی نیوی کو خطے کی سمندری حدود میں بیلیسٹک میزائلوں کے ممکنہ حملے پر تشویش لاحق ہے۔ اس اسرائيلی عہدیدار کے مطابق حزب اللہ لبنان اسرائيل سمندری سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے ان میزائلوں کو استعمال میں لا سکتی ہے جو کہ اسرائیل کے لئے بہت ہی خطرے کی بات ہے کیونکہ اسرائيل کی ننانوے فیصد درآمدات سمندر کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔ بحیرہ احمر کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ بحیرہ روم کے علاوہ اسرائیل کا رابطہ دنیا کے ساتھ جوڑنے والا یہ ایک اصلی راستہ ہے۔ آج صیہونی حکومت کو مشرقی اور مغربی ایشیاء تک رسائی کے لئے آبنائے باب المندب سے ہی گزرنا پڑتا ہے۔ بنابریں یمن کا انتظام انقلابیوں کے ہاتھ میں آنے اور اس ملک سے سعودی عرب کا اثر و رسوخ ختم ہونے سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے کیونکہ آبنائے باب المندب کا کنٹرول استقامت اور حزب اللہ کے حامیوں کے ہاتھ میں آنا اسرائيل کی سمندری تجارت کے لئے ایک بڑا خطرہ شمار ہوتا ہے۔ اس لئے صیہونی حکومت سعودی عرب کی مدد کے ذریعے انصاراللہ کی شکست کا راستہ ہموار کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ صیہونی حکومت اس بات کو جانتی ہے کہ اگر اس نے ان حملوں میں شرکت نہ کی تو ممکن ہے کہ سعودی عرب یمن کے انقلابیوں پر کاری ضرب نہ لگا سکے اور اس صورت میں باب المندب کے بارے میں صیہونیوں کو جس خطرے کا سامنا ہے وہ مسلمہ حقیقت کا روپ دھار لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یمن سے متعلق اپنے اقدامات میں شدت پیدا کرتے جا رہے ہیں۔ صیہونی کے ان اقدامات کے برملا نہ کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ سعودی حکام مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں کیونکہ سعودی حکام یمن جیسے اسلامی ملک پر حملہ کرنے کی وجہ سے رائے عامہ کے دباؤ کا سامنا ہے اور اگر ان حملوں میں ثابت اور واضح ہوجائے کہ ان کو اسرائيلیوں کا تعاون بھی حاصل ہے سعودی حکام پر پڑنے والے دباؤ میں بہت زیادہ شدت پیدا ہو جائے گي۔ اور یہ چیز سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہے۔ بنابریں اسرائیل بھی یمن پر حملوں میں شریک ہے لیکن رائے عامہ کے خوف کی وجہ سے اس بات کو منظر عام پر نہیں لایا جا رہا ہے۔