الوقت- مجلس وحدت المسلمین پاکستان نے محرم الحرام کے دوران پنجاب میں مقررین پر پابندی کے خلاف اتوار کو احتجاج کا اعلان کر دیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علانہ ناصر عباس کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کو امن پسندوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس نے کہا کہ پنجاب حکومت عزاداری کو روکنے کو کوشش کر رہی ہے حالانکہ عزاداری کا تعلق کسی فرقے یا جماعت سے نہیں۔ علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ جہاں مسلم لیگ نون کی حکومت ہے وہیں مسائل ہیں، ہم بات چیت چاہتے ہیں لیکن حکومت احتجاج پر مجبور کر رہی ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنما نے مطالبہ کیا کہ پولیس کو مظالم سے روکا جائے اور شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ ہم نیشنل ایکشن پلان سے خوش تھے کہ دہشت گردی کے عفریت سے قوم کو نجات مل جائے گی، لیکن حکومت نے سازش کر کے نیشنل ایکشن پلان کا رخ موڑ کر دہشت گردوں کیخلاف آواز بلند کرنے والوں کی جانب کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 35 سالوں میں جو کام دہشت گرد نہیں کرسکے وہ وفاقی حکومت، سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومت نیشنل ایکشن پلان کی اڑ میں کر رہی ہیں۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اعلان کیا کہ کل سے ہماری مجالس احتجاجی مجالس اور پورے پاکستان میں کل سے احتجاجی جلوس اور دھرنے دیئے جائیں گے۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عزاداری سید شہدا ہمارا آئینی و قانونی حق ہے ہم اپنے اس حق سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹیں گے، پنجاب پولیس عزاداری کیخلاف غیرقانونی و غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ جس طرح انڈین آرمی کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کے ساتھ برتاو کر رہی ہے ویسے ہی پنجاب پولیس ملت تشیع کے خلاف صف آرا ہے۔
سربراہ مجلس وحدت مسلمین کا کہنا تھا کہ شہباز شریف قوم پر واضح کریں ان کو یہ ایجنڈا کس نے دیا ہے؟ ہمارے چوبیس ہزار سے زائد پیارے اس مادر وطن سے وفا کے جرم میں شہید کیے گئے۔ پنجاب میں ہمارے شہداء کے قاتلوں کو شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ وظائف دیتے رہے، ہم پنجاب حکومت کے اس متعصبانہ طرز عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں، ہم پرامن اور اس مادر وطن کے باوفا بیٹے ہیں، پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں نون لیگ ملت جعفریہ کے خلاف انتقامی کاروائی کر رہی ہے جس قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ادھر پاکستان میں دہشت گردانہ اور فرقہ وارانہ حملے جاری رہنے کے پیش نظر کہ جن میں محرم کے مہینے میں اضافہ ہو جاتا ہے، حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک میں سیکورٹی انتظامات سخت کر دے گی۔
ممکنہ دہشت گردانہ حملوں پر تشویش کے پیش نظر حکومت پاکستان سیکورٹی انتظامات سخت کرکے اورانسداد دہشت گردی فورس میں اضافے جیسے اقدامات انجام دے کر محرم الحرام کے مہینے میں ان حملوں کو ممکنہ حد تک روکنا چاہتی ہے۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران خاص طور پر اہل تشیع کے خلاف فرقہ وارانہ اور دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر کسی بھی شکل میں سیکورٹی انتظامات میں اضافہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان کے عوام کے درمیان پرامن بقائے باہمی پر ایک نظر ڈالنے سے مکمل طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے اہل سنت بھی محرم الحرام میں عزاداری سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کو خاص اہمیت دیتے ہیں حتی کہ بعض تو عزاداری کے جلوسوں میں سبیلوں کا اہتمام کرتے ہیں، تعزیہ نکالتے ہیں اور نذر و نیاز کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس بنا پر اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ فرقہ پرست اور دہشت گرد گروہ پاکستان میں خانہ جنگی شروع کرانے کے لیے کئی برسوں خاص طورسے محرم کے مہینے میں امام بارگاہوں اورعزاداری کے جلوسوں پردہشت گردانہ حملے کر رہے ہیں تاکہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے عزاداروں اور شیعوں کو سنیوں سے بدظن اوربدگمان کرسکیں۔
اس بنا پر پاکستان کے عوام کو توقع ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں ضروری اقدامات کر کے ملک میں ہر قسم کے دہشت گردانہ اقدامات کو روکیں گی۔ پاکستان میں شیعوں اور اہل سنت کے درمیان اختلاف اورتفرقہ پیدا کرنے کے لیے وہابیوں کی کوششوں کے پیش نظر ان کی محفلوں اور اجتماعات کو کہ جن میں نفرت، اختلاف اور نفاق کا بیج بویا جاتا ہے، سیکورٹی اورانٹیلی جنس اداروں کی جانب سے کنٹرول کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
محرم الحرام کے مہینے میں امن و امان قائم رکھنے میں حکومت پاکستان کی کامیابی کے لیے فرقہ پرست گروہوں اوردہشت گردوں کے خلاف حقیقت پسندانہ، ٹھوس اوربھرپورکارروائی ضروری ہے تاکہ کوئی بھی دہشت گرد گروہ خود کو محفوظ نہ سمجھے، اس لیے کہ پاکستان میں بہت سے فرقہ پرست اور دہشت گرد گروہ جانے پہچانے ہیں اورماہرین کے خیال میں حکومت پاکستان کے لیے ان کے خلاف کارروائی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ایک اور اہم بات جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا وہ پنجاب حکومت کے حوالے سے اہل تشیع کے تحفظات ہیں پنجاب حکومت کے بعض وزرا پر دہشتگردوں کی حمایت کے الزامات ہیں اگر یہ الزامات درست ہیں تو پنجاب حکومت کو اس کا ازالہ کرنا ہوگا۔کوئی ملک اور علاقہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہاں امن و امان نہ ہو لہذا اگرپنجاب کے وزیر اعلی اپنے صوبے میں شیعوں کے مطالبات پر عمل نہیں کرتے تو نہ کریں کم از کم اپنے صوبے کی ترقی کے لئے دہشتگردی اور دہشگردوں کی حمایت ترک کردیں کیونکہ ان دہشتگردوں کا ماضی اور حال اس بات کا گواہ ہے کہ یہ جہاں پر مضبوط ہوتے ہیں وہاں تباہی،قتل و غارت اورناامنی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔