الوقت- عالمی بالخصوص مشرق وسطی کے حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار عرصے سے اس بات کا تکرار کررہے تھے کہ آل سعود اور اسکے اتحادی علاقے میں اسرائیل کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں لیکن ہماری مسلمان برادری حرمین شریفین کے تقدس اور" میں نہ مانوں" کی پالیسی پربضد ہوکر اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی اور انہوں نے ہمیشہ آل سعود کو مقدس گآئے قرار دیتے ہوئے ہمیشہ اسکے لئے نرمی کا رویہ اپنایا ۔گذشتہ سالوں میں پے درپے اتنے واقعات رونما ہوئے جس سے ثابت ہوتا تھا کہ آل سعود ایک ایسے راستے پر
چل پڑے ہیں جہاں سے نہ صرف انکی واپسی ناممکن ہے بلکہ اس کا نتیجہ امت اسلامی کی تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں برآمد ہوگا۔اندر کی خبروں بالخصوص یمن،شام اورعراق میں سعودی عرب کی کھلی مداخلت کی وجوہات اور اسکے اھداف پر نظر رکھنے والے توپہلے سے ہی جانتے ہیں لیکن گذشتہ دنوں سعودی وزیر خارجہ نے ایک بیان دیکر آل سعود کے تمام چھپے اہداف کو طشت از بام کردیا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے صیہونی اخبار معاریو کو انٹرویو دیتے ہوئے ریاض تل ابیب تعلقات کی
تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین ان کے ملک کی ترجیح نہیں ہے اور پہلے شام کا مسئلہ حل ہونا چاہئے۔
عادل الجُبیر نے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ سعودی عرب اسرائیل اورفلسطین کے درمیان ساز باز کے سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ لیکن اس سے قبل شام میں بحران کا خاتمہ اور داعش کی دہشت گردی کا قلع قمع ہونا چاہئے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے ایسی حالت میں صیہونی اخبار کو انٹرویودیا ہے کہ جب بچوں کی قاتل اسرائیلی حکومت نے فلسطینی نوجوانوں کے قتل عام کا نیا مرحلہ شروع کر دیا ہے۔ صیہونی فوجی تقریبا دو ہفتوں سے بیت المقدس اور مغربی کنارے
میں بے گناہ فلسطینیوں خصوصا فلسطینی نوجوانوں کو فائرنگ کر کے شہید کر رہے ہیں لیکن بعض عرب ملکوں خصوصا سعودی عرب اور عالمی اداروں نے اسرائیل کے ان مظالم پر
مسلسل خاموشی سادھ رکھی ہے۔ اسلامی دنیا کو حالیہ دنوں کے دوران بعض عرب ممالک کے منافقانہ رویئے کی وجہ سے ایسے مظالم کا سامنا ہے جو بعض اسلامی ممالک ڈھا رہے ہیں۔ سعودی عرب حرمین شریفین کے خادم اور ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے وہی ظلم کررہا ہے جو صیہونی حکومت برسہا برس سے فلسطینی سرزمینوں میں فلسطینی بچوں اورعورتوں پرڈھا رہی ہے۔ سعودی عرب کی حالیہ پانچ برسوں کی پالیسیوں پر نظر ڈالنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ریاض اور تل ابیب ایک سکے کے دو رخ ہیں اور ان کے باہمی تعاون سے اسلامی دنیا کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ شام، یمن، عراق اور بحرین کے حالات اسلامی دنیا پر سعودی عرب کے مظالم کے واضح مصادیق ہیں۔ سعودی عرب شام میں دہشت گرد گروہ داعش سے تعلق رکھنے والے کرائے کے قاتلوں اور وحشی دہشت گردوں کی حمایت کے ذریعے شامی عوام کے قتل عام میں ملوث ہے۔ سعودی عرب اپنے پیٹروڈالر خرچ کرنے کے ذریعے دنیا کے مختلف علاقوں سے وحشی جنگجو شام میں بھیج رہا ہے جو پست ترین
اقدامات کے ذریعے انسانیت کے خلاف بدترین مظالم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب یورپ خصوصا امریکہ کے فوجی ساز و سامان سے لیس ہو کر اور اسرائیل کی فوجی مدد حاصل کر کے یمن کے بے گناہ عوام کا قتل عام کر رہا ہے۔ باوثوق دستاویزات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسرائیلی لڑاکا طیارے امریکی اور سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں کے ساتھ مل کر یمن کے عوام کو وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
خطے خصوصا شام اور یمن کے سلسلے میں سعودی عرب اور اسرائیل کا باہمی تعاون اسلامی دنیا کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت بن چکا ہے۔ یہ تعاون یمن اورشام میں بے شمار مظالم و جرائم پر منتج ہوا ہے۔ سعودی عرب یمن میں عوام کےخلاف
کارروائیاں انجام دے رہا ہے، شام میں دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کر کے شامی عوام کا قتل عام کر رہا ہے اور بحرین میں آل خلیفہ کی حکومت کے ساتھ تعاون کرکے اس ملک کے انقلابی عوام کو کچل رہا ہے۔
اسرائیل اور سعودی عرب کا باہمی فوجی تعاون ہی اس بات کا سبب بنا ہے کہ سعودی عرب فلسطینی سرزمین میں صیہونی حکومت کے مظالم کے سلسلے میں اپنی آنکھیں بند رکھے اوراس ملک کا وزیر خارجہ عادل الجبیر صیہونی اخبار معاریو کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف لفظوں میں کہے کہ فلسطین ان کے ملک کی ترجیح نہیں ہے البتہ آل سعود نے یمن پر حملوں کے حوالے سے اسرائیل سے جو فوجی اور انٹیلیجنس مدد لی ہے اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب اس وقت ایک ہی صفحے پر ہیں۔