الوقت کی رپورٹ کے مطابق رواں سال حج کے دوران بھی ان کی بدانتظامی کی وجہ سے منی کا ہولناک سانحہ پیش آیا اور ہزاروں حجاج کرام اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب کے حکام پر وسیع پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ حکام اس خیال باطل میں مبتلا ہیں کہ وہ حقائق کو نظر انداز کر کے اس صورتحال سے نجات حاصل کر سکتے ہیں جو خود ان کی اپنی پیدا کردہ ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے یمن کے امور میں ایران کی مداخلت کا اپنا بے بنیاد دعوی ایک بار پھر دہراتے ہوئے ایران کو بحران یمن کا ذمہ دار ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے بدھ کے دن سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے اس دعوے کو مسترد کر دیا اور سعودی حکام سے کہا کہ وہ بیانات دیتے وقت حقائق کو مد نظر رکھا کریں۔
یمن کے بارے میں سعودی حکام کی پالیسیاں اس قدر ذلت آمیز ہیں کہ بعض خبری ذرائع نے صیہونی اخبار معاریف کے حوالے سے جو رپورٹیں دی ہیں ان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس ملک نے یمن پر حملے کے لئے اسرائیل سے مدد حاصل کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن کے عوام کو کچلنے کے سلسلے میں اسرائیل کی جانب سے سعودی عرب کی حمایت کیا جانا خطے میں امریکہ اور صیہونیزم کی پراکسی وار کا حصہ ہے اور اس پراکسی وار میں سعودی عرب کی دولت خرچ کی جا رہی ہے۔
سعودی عرب نے یمن کے مفرور سابق صدر منصور ہادی کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے مارچ کے مہینے سے یمن میں فوجی مداخلت شروع کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ میں آفس فار دی کوارڈی نیشن آف ہیومنیٹیرین افیئرز نے کہا ہے کہ یمن پر حملوں میں اب تک پانچ ہزار سے زیادہ افراد شہید اور پچیس ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کو پیش کی جانے والی رپورٹوں کے مطابق چھبیس مارچ سے اگست کے مہینے تک یمن میں چار سو سے زیادہ بچے شہید ہوئے۔ سعودی عرب کے حکام اپنے ان کالے کرتوتوں کے باوجود ایران پر یمن کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کا الزام لگاتے ہیں در اصل وہ ان الزامات کے ذریعے یمن میں وسیع پیمانے پر کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی اقوام متحدہ کی آزادانہ تحقیقات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔