الوقت- عالمی حالات بالخصوص دہشتگردی کی حالیہ اور تکفیری دہشتگردی کے بارے میں باخبر سیاسی اور صحافتی حلقوں کی متفقہ رائے ہے کہ اس دہشتکردی کا اصل خالق سرمایہ دارانہ نظام ہے اس نظام کے نمائندہ کبھی امریکہ بن جاتا ہے اور کبھی یورپی ممالک۔تکفیری دہشتگردی کا جتنا بھی مطالعہ کیا جائے اس میں امریکہ اور یورپ کا بالواسطہ اور بلا واسطہ کردار ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔طالبان کی تخلیق کے بارے میں پاکستان کی سابق اور مقتولہ وزیر اعظم بےنظیر کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے جبکہ القاعدہ اور داعش کے بارے میں امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا اعتراف بھی زبان ذد خاص و عام رہا ہے۔دنیا کی ان دواہم خواتین کے بعد حال ہی میں ایک اور اہم خاتون یعنی یورپی یونین کی نمائندہ فیڈریکا موگرینی نے بھی تکفیری دہشتگردی کے بارے میں ایک اہم اجلاس میں اعتراف کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے اعتراف کیا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں جنگ سے متاثرہ ملکوں سے اتنی دہشت گردی نہیں آئی ہے جتنی یورپ نے ان ملکوں میں برآمد کی ہے۔
فیڈریکا موگرینی نے جمعہ کے روز یورپی یونین کے سیکورٹی مطالعات کے ادارے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے براعظم میں دہشت گردی اتنی نہیں آ رہی ہے جتنی زیادہ ہم باہر بھیج رہے ہیں۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ نے مزید کہا کہ عراق اور شام جیسے جنگ سے متاثرہ ممالک میں مغرب کے دہشت گرد عناصر کی موجودگی کی ماہیت کی وجہ سے، یورپی یونین ان ملکوں میں دہشت گردی برآمد کرنے والے ایک مرکز میں تبدیل ہو گیا ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ دہشت گردی اور پناہ گزینوں کے موجودہ بحران پر قابو پانے کے لیے یکساں اور مشترکہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹوں کے مطابق پانچ ہزار سے زائد یورپی دہشت گرد عراق اور شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد گروہوں کی صفوں میں شامل ہو کر لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ داعش گروہ میں تقریبا تیس ہزار غیرملکی دہشت گرد شامل ہیں کہ جن کا تعلق دنیا کے ایک سو ممالک سے ہے۔
دہشت گردی خاص طور پر تکفیری دہشت گردی کو پھیلانے میں مغرب اور یورپ والوں کے کردار کے بارے میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کا اعتراف، مغرب کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت و پشت پناہی اور اس سلسلے میں ان کے دہرے معیارات کی تائید کے مترادف ہے۔ اب تک دوسرے ملکوں کے حکام نے کئی بار مغرب والوں کے اس متضاد موقف کی جانب اشارہ کیا ہے۔
درحقیقت یورپیوں سمیت مغرب والوں نے خاص طور پر یورپی یونین کے دو اہم ارکان ہونے کی حیثیت سے برطانیہ اور فرانس نے امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام میں داعش اور دیگر تکفیری اور دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے اور انھیں مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس وقت مشرق وسطی میں جنگ اور بدامنی میں اضافے اور اس کے نتیجے میں یورپ کی جانب پناہ گزینوں کی مہاجرت کی صورت میں اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
شام میں خانہ جنگی شروع ہونے اور اس کا دائرہ پھیلنے کے بعد شامی حکومت کو ختم کرنا،شام کے بارے میں برطانیہ، فرانس اور ان کے مغربی اور عرب اتحادیوں کی پالیسی اور حکمت عملی تھی اور اس کے لیے انھوں نے شامی حکومت کے مسلح مخالفین کو مالی، لاجیسٹک، انیٹیلی جنس اور فوجی مدد و حمایت فراہم کی اور انھیں فوجی تربیت بھی دی۔ درحقیقت مغربی حکومتوں نے اپنے ہدف و مقصد کو حاصل کرنے یعنی شام کی قانونی حکومت کو گرانے کے لیے سیکولر اور تکفیری گروہوں سمیت دہشت گرد گروہوں کو استعمال کیا۔ لیکن چار سال گزرنے کے بعد اب ان کی تدبیریں الٹی پڑ گئی ہیں اور حالات ان کی توقعات کے مکمل برعکس تبدیل ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب دہشت گرد گروہ داعش نے بھی عراق کے بعض علاقوں پر قبضہ کر کے اپنے زیرقبضہ علاقوں میں اضافہ کیا اور مغرب کے اتحادیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس وقت برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کہ جو ایک دن داعش کو وجود میں لانے اور اس کو مضبوط بنانے کا باعث بنے تھے، داعش کے خلاف نام نہاد بین الاقوامی اتحاد کے ذریعے اس کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
یورپی حکومتیں اس نتیجے پر پہنچ گئی ہیں کہ داعش کے اقدامات پر دفاعی طرزعمل اور پالیسی جاری رکھنے سے ان حملوں کا دائرہ حتی یورپ کی سرزمین تک پھیل سکتا ہے۔ اس کے باوجود یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ آج مغرب، مشرق وسطی میں اپنے ہاتھوں بوئے گئے دہشت گردی کے بیج کی فصل کو یورپ اور امریکہ میں کاٹ رہا ہے۔ یورپ سے دہشت گردی برآمد کرنے کے بارے میں فیڈریکا موگرینی نے یہ بیان شام، عراق اور لیبیا جیسے ملکوں میں دہشت گردی کے المناک نتائج کے بارے میں تشویش سے زیادہ، یورپی یونین کے مختلف ممالک میں اس کے پھیلنے اور اس کے خطرناک سیکورٹی اور سماجی نتائج کے بارے میں تشویش کی بنا پر دیا ہے۔
ایشیا،یورپ اور امریکہ سے تعلق رکھنے والی ان تین خواتین عالمی رہنماؤں یعنی بے نظیربھٹو،ہلیری کلنٹن اور موگرینی کا یہ اعتراف کہ مذہبی دہشتگردی مغرب کی پیداوار ہے اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس سے فائدہ بھی یہی طاقتیں اٹھا رہی ہیں۔ رہ گئے مسلمان اور اسلام تو انہیں تو ہر جگہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا ہے