الوقت- گذشتہ ایک سال میں سعودی عرب بڑے نشیب و فراز اور پرتلاطم دور سے گذرا ہے۔ شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد سعودی عرب تیزی مختلف حادثات اور بحرانوں میں گرفتار ہوتا چلا گیا۔ وہ بحران جن سے سعودی عرب اپنے مفادات کے لئے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا وہ خود آل سعود کی بقا کے لئے خطرہ بن گئے کیونکہ آل سعود نے بے تدبیری اور مستقبل پر نظر رکھے بغیر اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی بنیاد رکھی اسی وجہ سے اس کی خواہش کے مطابق خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
تیل کی قیمتوں میں کمی
سعودی عرب نے علاقے میں ایران کی بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے جان بوجھ کر تیل کی قیمتوں میں کمی لانے کی سازش رچی تھی۔ سعودی عرب کے پالیسی ساز اداروں نے ایران پر عائد پابندیوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اگر تیل کی قیمت کم ہوجاتی ہے اور تیل کی آمدنی بند ہوجاتی ہے تو ایران بہت سے علاقوں میں جہاں اثر ورسوخ رکھتا ہے نکل جائے گا اور مشرق وسطی کے علاقے میں اپنے بہت سے منصوبوں سے دستبردار ہوجائے گا۔ آل سعود کے ان اندازوں کے برخلاف تیل کی قیمت میں کمی سے نہ گذشتہ برس سے اب تک ایران کی کارکردگي میں کوئي تبدیلی آئي بلکہ جتنے بھی واقعات رونما ہورہے ہیں وہ ایران کے مفادات کی راہ میں رونما ہورہے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب وسیع پیمانے پر بجٹ خسارے کا شکار ہوچکا ہے اور فایننشیل ٹائمز کے مطابق اس کا بجٹ خسارہ تہتر ارب ڈالر تک پہنج چکا ہے۔
داعش کی حمایت
سعودی عرب کی جانب سے داعش دہشتگرد گروہ کی حمایت ایک اور غلطی تھی جس کا ارتکاب آل سعود نے اپنی خارجہ پالیسی میں کیا۔شام کی حکومت گرانا گذشتہ چند برسوں میں آل سعود کا نصب العین بن چکا تھا۔ سعودی عرب نے اس ھدف تک پہنچنے کے لئے ہر جتن کرڈالا اور داعش کے ہزاروں دہشتگردوں کو پیشرفتہ ہتھیاروں سے لیس کرکے شام روانہ کردیا۔ آل سعود کے اس اقدام کا نتیجہ دسیوں ہزار افراد کے مارے جانے اور زخمی ہونے کی صورت میں برآمد ہوا۔ شام میں بشار اسد کی حکومت نہیں گری اور بلکہ اب جبکہ شام کا بحران پانچويں برس میں داخل ہوچکا ہے مغربی ممالک سرانجام بشار اسد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اب بشار اسد کے استعفی کی بات نہیں کرتے۔ اس درمیاں سعودی عرب نے خود کو ایک بار پھر دہشتگردوں کے حامی کے طور پر پیش کیا ہے لیکن اسے کسی بھی طرح کی کامیابی نصیب نہیں ہوئي۔ اب ایسا لگتا ہےکہ داعش کے دہشتگرد شاید ریاض کا رخ کرلیں اور آل سعود کو بحران تشخص میں مبتلا کردیں۔ سعودی عرب میں حالیہ بم دھماکے جن کی ھمہ داری داعش نے قبول کی ہے اسی دعوے کا ثبوت ہیں۔
جنگ یمن
سعودی عرب جسے شام کی حکومت گرانے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اس نے اس مرتبہ سلمان کے تخت نشین ہونے کے بعد اپنے جنوبی ہمسائے یمن پر حملہ کردیا۔ آل سعود نے یہ سوچ رکھا تھا کہ وہ چںد ہی دنوں میں یمن پر قبضہ کرلے گي اور اپنے پٹھوؤں کو دوبارہ اقتدار میں لے آئے گي لیکن یمن پر آل سعود اور اس کے پٹھوؤں کی جارحیت کو چھے ماہ کا عرصہ گذر رہا ہے۔ غیر سرکاری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہےکہ جنگ یمن سے آل سعود کو ساٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ جنگ یمن کو چھے مہنیے سے زیادہ کا عرصہ گذرنے کے باوجود آل سعود کو اپنا ایک بھی ھدف حاصل نہ ہوسکا بلکہ یمن کے انقلابیوں نے سعودی عرب کے جنوبی علاقوں پر حملے کرکے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یمن پر آل سعود کی جارحیت کے بعد اب یمنی قوم سعودی قبضے سے اپنے علاقوں نجران، جیزان اور عسیر کو آزاد کرانے کی کوشش کررہے ہیں، ایک عرصہ قبل آل سعود نے ان علاقوں پر حملے کرکے ان پر قبضہ کرلیا تھا۔ جنگ یمن جسے سعودی عرب کے حکام شام میں ناکامی کے بعد اپنی ترپ کی چال قرار دے رہےتھے اب آل سعود کے لئے ایسا دلدل ثابت ہوئي ہے جس سےنکلنا اس کے لئے مشکل ہورہا ہے۔
سانحہ منی
آل سعود کی نااہلی اور بدانتظامی کو آل سعود کا سب سے بڑا بحران قراردیا جاسکتا ہے۔ یہ ملک تیل کے سب سے بڑے ذخائر کا حامل ہے لیکن اس نے کارآمد مینجمینٹ سسٹم قائم کرنے میں ناکامی کا ثبوت دیا ہے۔ اس سال منی میں رمی جمرات کے موقع پر چار ہزار سے زائد حجاج مارے گئے۔ اس سانحے کی وجوہات سے قطع نظر اس سے ایک بار پھر آل سعود کی نااہلی اور بدانتظامی ثابت ہوئي ہے۔ سانحہ منی سے داخلی سطح پر آل سعود کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچے گا اور جو حکومت داخلی سطح پر کامیاب نہیں ہوتی وہ خارجہ پالیسی میں بھی ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی اور آ ج سانحہ منی آل سعود کی ناکامی کی سب سے بڑی علامت بن کر سامنے آیا ہے۔
فوق الذکر چار بحرانوں سے سعودی عرب داخلی اور عالمی سطح پر شدید مسائل کا شکار ہوچکا ہے اور اگر اس ملک نے دیگر ملکوں کے ساتھ اپنے رویے میں اصلاح نہ کی تو ان بحرانوں سے اس کی بقا اور وجود کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔