الوقت- صیہونی حکومت اور دہشت گرد گروہوں کے طرزعمل کا جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ان دونوں میں کافی زيادہ ایسی مشابہت پائی جاتی ہے کہ جس سے دونوں کے ہم فکر ہونے اور ان کے باہمی روابط کی عکاسی ہوتی ہے- مثال کے طور پر صیہونیوں نے انیس سو اڑتالیس کے قبل کے برسوں میں، ہاگانا، ایرگون اور اشٹرن وغیرہ جیسے دہشت گرد گروہوں کو جنم دیا تھا جو فلسطینی بچوں کا قتل عام کرتے اور فلسطینیوں کے مال و دولت کو تباہ و برباد کرتے تھے اور جو بھی ان کے حکم کی مخالفت کرتے تھے ان کو ختم کردیتے تھے-
صیہونی حکومت نے ہمیشہ دہشت گرد گرہوں کے ساتھ اتحاد کرکے ان سے استفادہ کیا ہے اور اسی سلسلے ميں اس نے لبنان کے فلانجسٹ دہشت گردوں کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور 1978 میں لبنان کے مارونی عیسائی ایجنٹوں، اور فوجی افسروں "سعد حداد" اور "آنتوان لحد" کی قیادت میں لبنان کو تقسیم کرنے اور جنوبی لبنان کو ایک الگ ریاست بنانے کی کوشش انجام دی- اس وقت دہشت گرد گروہ داعش بھی ان افراد کو جو ان کے حکم اور دستور سے سرپیچی کرتے ہيں ان کو نابود کردیتا ہے- اس کے ساتھ ہی دنیا کے دوردراز علاقوں میں بسنے والے تکفیری اور دہشت گرد گروہوں مثلا بوکوحرام نے داعش کے ساتھ بیعت کی ہے اور ایسے دہشت گرد گروہوں کی تعداد تیس تک پہنچتی ہے-
داعش اور صیہونی حکومت کے پروپگنڈے کی روشیں بھی ایک ہی جیسی ہیں – داعش کی روش، متعدد محوروں کی حامل ہے مثال کے طور پر اسلامی ملکوں میں قائم حکومتوں کا تختہ الٹنے کے بعد وہاں اسلامی خلافت کا قیام، اور عالم اسلام کے لئے ایک وسیع و عریض قلمرو قائم کرنے کے مقصد سے، اسلامی حکومتوں کے درمیان سرحدوں کو ختم کیا جانا شامل ہے تاکہ مسلمان آزادانہ طور پرایک دوسرے سے رابطہ برقرار رکھ سکیں۔ یہ دہشت گروہ اس بات کا بھی مدعی ہے کہ اسلامی خلافت کی سرزمین، تمام مسلمانوں کے لئے آئیڈيل ہے اور صرف دنیا میں قانونی حکومت یہی ہے- بچوں اور جوانوں کے درمیان تکفیری افکار کو فروغ دینا، ان کو فوجی ٹریننگ دینا، اپنے اقدامات کو آخر الزمان کے قیام کے طور پر متعارف کرانا، سماجی چینلوں پر آزادانہ اور وسیع پیمانے پر سرگرمیاں انجام دینا اور اپنی طاقت کی نمائش کے لئے وحشیانہ اقدامات کی براہ راست ویڈیو فلم جاری کرنا، داعش کی جملہ روشیں شمار ہوتی ہیں- صیہونزم کے افکار میں بھی تشدد اور سرکوبی کا عمل، بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی واضح مثال دیر یاسین، کفر شوبا، جنین، صبرا اور شتیلا، غزہ کی تین جنگوں اور اسی جیسے دیگر موارد میں بھی اس کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے- اسی طرح دوسری تحریک انتفاضہ کے آغاز یعنی (2000 سے 2015 ) تک ساڑھے آٹھ ہزار فلسیطینیی اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار کئے جاچکے ہیں کہ جن میں سے اٹھارہ سال سے کم عمر کے تیرہ ہزار نوجوان شامل ہیں- صیہونی عناصر، فلسطین کو سرزمین موعود اور صرف خود کو اس سرزمین کا باشندہ قرار دیتے ہیں اور اس بات کے مدعی ہیں کہ آخر کار زمین پر ان ہی کی حکومت ہوگي-
ذرائع ابلاغ سے استفادہ، صیہونیوں کی ترجیحات میں سے ہے- جیسا کہ تئو دور ہرٹزل نے صیہونزم کی بنیاد رکھتے وقت، عالمی رائے عامہ پر صیہونیوں کے تسلط کی ضرورت تاکید کی تھی اور ذرائع ابلاغ کو اپنے اہداف تک پہنچنے کا سب سے مضبوط وسیلہ قرار دیا تھا- اور جرات کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اب تک کوئی بھی دہشت گردی کا ڈھانچہ، صیہونی حکومت اور داعش کے برابر، اپنے ناجائز اہداف کے حصول کے لئے میڈیا اور سماجی چینلوں سے استفادہ نہیں کرسکا ہے- صیہونیوں اور مغربی ملکوں کے میڈیا ذرائع اور چینلوں نے وسیع پیمانے پر، فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کو ان کی سرزمین سے نکالے جانے کی تصاویر نشر کی ہیں اور اس کا مشاہدہ جنین، دیریاسین، اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں کیا جاسکتا ہے- اس کام کا مقصد فلسطینیوں ميں رعب و دہشت پھیلانا اور ان کو اپنی سرزمین سے کوچ کرنے پر مجبور کرنا تھا - صیہونیوں نے زیادہ سے زیادہ زمینوں پر قبضے اور دنیا میں وحشت کا ماحول پیدا کرنے کے لئے، مصر، لبنان، شام اوراردن سمیت علاقے کے ملکوں پر یلغار کیا- ان ہی اقدامات کے ساتھ ہی صیہونی حکومت نے غاصبانہ اقدامات کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد شروع کیا اور اس مرحلے میں اس نے، مقبوضہ سرزمینوں پر یہودیوں کو آباد کرنے کی غرض سے یہودی ایجنسیوں اور مغربی ملکوں سے تعاون حاصل کیا اور ان سے مدد لی-
اس وقت عراق اور شام میں داعش کا رویہ بھی صیہونی حکومت جیسا ہی ہے- داعش بھی اپنے مخالف عقیدہ مسلمانوں نیز مذہبی اور قومی اقلیتوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کرکے انہیں ذرائع ابلاغ کےذریعے منعکس کر رہاہے اسی طرح داعش عراق و شام کے شہریوں پر ظلم کرکے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے اور ان کی جگہ پر دنیا کے مختلف علاقوں سے، جنگجوؤں، انتہا پسندوں، شدت پسندوں اور اپنے آلہ کاروں کو لاکر بسارہا ہے اور داعش میں شمولیت کے لئے یہ گروہ، جہاد نکاح جیسے عنوان کے ذریعے جوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے کہ جو در اصل صیہونی حکومت کے منصوبے پر عملدرآمد ہے- داعش کی کارکردگی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ گروہ، شہروں پر قبضےکے بعد ان شہروں کے تمام تہذیبی اور قدیمی آثار کو تباہ کردیتا یا ان کو اسمگل کردیتا ہے اور پھر اپنی مخصوص پالیسیوں کےذریعے ان شہروں اور علاقوں کے عوام خاص طور پر قومی اور مذہبی اقلیتوں کو اپنا گھر بار چھوڑکر چلے جانے پر مجبور کردیتا ہے- صیہونی عناصر یہ کام یہود کے نام پر انجام دیتے تھے اور داعش اسلام کا نام لے کر ان جارحیتوں کے مرتکب ہورہے ہیں- اسی طرح تاریخی و مذہبی اور ثقافتی آثار مٹانا، صیہونیوں اور داعش گروہ کی مشترکہ اسٹریٹیجی ہے- حقیقت ميں کہا جاسکتاہے کہ داعش جیسے دہشت گرد گروہ کے اقدامات در اصل، مشرق وسطی اور اس کے ذخائر پر تسلط کے لئےصیہونزم اور نیو امپریالزم کی مدد و حمایت ہیں-
صیہونی حکومت اور داعش کے اصول و افکار کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ان دونوں کے درمیان بہت زیادہ شباہتیں موجود ہیں کہ جو ناقابل انکار ہيں۔