الوقت- روس شام میں اپنے اسٹرٹیجک، سیاسی اور طویل مدتی اہداف کے حصول کے علاوہ وہاں اپنی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کے درپے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ماسکو نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی لڑاکا افواج اور جنگی سازوسامان کو دہشتگردی کے خلاف ہونے والی اس جنگ میں آزمائے، وہ دہشتگردی جو ان دنوں حکومت اور اقوام کی سلامتی کے لئے اہم خطرہ بن چکی ہے۔ شام میں روسی فوج کی موجودگی کے نئے دور کا آغاز بحیرہ روم کے ساحل پر واقع بندر لاذقیہ میں مکمل طور پرجنگی سازو سامان سے لیس فوجی اڈے کے قیام سے ہوا۔ سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد سے اب تک یہ روس کا ایک بے مثال اقدام ہے۔
امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق روسیوں نے اس بیس میں ائیر ڈیفنس سسٹم قائم کیا ہے، جس میں زمین سے ہوا اور ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کے علاوہ ٹینک اور ٹی۔ ۹۰ بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں، لیکن شام میں روس کی فوجی کارروائیوں کے بارے میں جس اہم ترین مسئلے نے ماہرین کے ذہنوں کو مشغول کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ، آیا ولادیمیر پوٹن اپنی افواج کوجنگ زدہ علاقوں میں تعینات کریگا؟ کہ وہ دہشتگردی کے خلاف ہونے والی اس جنگ میں شرکت کریں۔ اس سلسلے میں شائع ہونے والی رپوٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف روس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنے فوجیوں کو جنگ زدہ علاقوں میں تعینات کرے بلکہ اس کی اسپیشل فورسز کے بعض دستے شام کے مختلف علاقوں میں تعینات ہو گئے ہیں اور شام میں مزید روسی فوج کے داخلے کے لئے زمین ہموار کر رہے ہیں۔
روئٹرز جیسے باخبر ذرائع نے 9 ستمبر کو شامی افواج کے فوجی اور سیاسی حالات کے بارے میں رپورٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ روسی افواج نے شامی افواج کے ساتھ فوجی کارروائیوں میں شریک ہو کر ان کی حمایت کا آغاز کر دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے،" کہ اب روسی صرف مشاور نہیں ہیں بلکہ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف ہونیوالی جنگ میں شامل ہو جائیں۔ اسی دوران انٹرنیٹ ویب سائٹ ڈیلی میل نے تصاویر شائع کیں، کہ روسی فوجیں کم از کم اپریل سے شام میں دیکھی جا رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں روس کی اس سطح کی فوجی کارروائیاں بے سابقہ ہیں۔ ایک سرکاری اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پرسی این این کو بتایا کہ شام میں ہونے والی حالیہ روسی فوجی کارروائیاں "قابل توجہ" ہیں اور یہ سوویت یونین سے باہر کے علاقوں میں، افغانستان جنگ کے بعد سے پہلی بڑی لشکر کشی ہوگی۔
اسی دوران الیاج مغنایر کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے حزب اللہ لبنان کے بعض اعلٰی عہدیداروں سے اچھے تعلقات ہیں، نے کویت سے شائع ہونے والے اخبار "الرای" میں شام کے جنگ زدہ علاقوں میں روسی فوج کی مکمل شرکت کی خبر دی ہے۔ مغنایر نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ روسی افواج حما، حلب، حمص، دمشق اور زبدانی پہنچ گئی ہیں، تاکہ صورتحال کی نگرانی اور شرکت کر سکیں اور اسی طرح عسکری پلان کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ جنگی تکنیک کے بارے میں تجاویز دے سکیں۔ اخبار میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اسپیشل فورسز اپنے پلانز کو آپریشن روم میں بیان کریں گی، تاکہ اگر ضروری ہوا توشام کے تمام جنگی مناطق میں اسپیشل اورعسکری فورسز کی مکمل تعیناتی کو عمل میں لایا جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روسی افواج کی اس ملک کی سرحدوں سے دور جنگی علاقوں میں وسیع پیمانے پرشرکت وہ اہم ترین مشن ہے کہ جسے ماسکو پہلی بار سویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد انجام دے رہا ہے۔ بنا برین دیکھیں اور منتظر رہیں کہ روس اپنے اس مشن میں کس حد تک کامیاب رہے گا۔