الوقت کی رپورٹ کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے اس عالمی پیغام میں علاقے میں امریکہ کی شرانگیز پالیسیوں کو کہ جو جنگ و خونریزی، تباہی و بربادی، لوگوں کی دربدری، غربت و پسماندگی اور نسلی و مذہبی اختلافات کا سبب بنی ہیں، تمام مسلمانوں کا اولین مسئلہ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ امت مسلمہ کے کاندھوں پر، غاصب صیہونی حکومت کے اقدامات کے بارے میں بھی کہ جس نے فلسطین میں وحشیانہ ترین جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور جو مسجد الاقصی کی بار بار بے حرمتی کرنے کے ساتھ ہی مظلوم فلسطینیوں کے جان و مال کو بھی تباہ و برباد کر رہی ہے، سنگین ذمہ داری ہے اور اسے اس سلسلے میں اپنے اسلامی فریضے کو جاننا چاہیے -
حقیقت یہ ہے کہ آج امت مسلمہ داعشی – صیہونی دہشت گرد گروہوں کی شیطانی سازشوں اور نسلی و مذہبی فتنوں اور جنگ افروزی کے ساتھ ساتھ مذہبی انتہا پسندی کا بھی شکار ہے اور ان دہشت گرد گروہوں نے اپنے جارحانہ اور مجرمانہ اقدامات سے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ انسانی عزت و کرامت کو تباہ و برباد کرنے اور اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کے لیے کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کرتے ہیں -
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض مسلمان حکومتوں نے بھی اصلی خطروں یعنی صیہونی حکومت، دہشت گردی اور انتہا پسندی پر توجہ دینے کے بجائے اپنی قوموں کی دولت و ثروت اور فوجی طاقت کو علاقے کی سلامتی کے لیے ایک خطرے میں تبدیل کر دیا ہے- علاقے میں بحرین سے لے کر عراق، شام، یمن، دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پٹی تک اور ایشیا اور افریقہ کے بعض ممالک میں جو افسوس ناک واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ امت اسلامی کی سنگین مشکلات اور مصائب کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ایسی مشکلات اور مصائب ہیں کہ جن میں عالمی سامراج کی سازش کو دیکھنا چاہیے اور اس کو ناکام بنانے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ اس بنا پر رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں اس کلیدی نکتے کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ قوموں کو اپنی حکومتوں سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ان مشکلات اور مصائب کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور اس سلسلے میں اقدام کریں اور حکومتیں بھی اپنی سنگین ذمہ داریوں کو نبھائیں۔
اسلامی ممالک کے پاس جو وسائل ہیں ان کے ذریعے وہ ان مشکلات کے حل کے لیے کوئی چارہ کار تلاش کر سکتے ہیں لیکن ایسے عوامل بھی موجود ہیں کہ جو عالم اسلام کی کمزوری اور تفرقے کا باعث بنے ہیں۔ ان میں سے ایک عامل کہ جس نے اس مسئلے کو ہوا دی ہے، امت مسلمہ کے اس اتحاد کی اہمیت کو درک نہ کرنا ہے کہ جس کی ایک جھلک ہمیں حج کے موقع پر نظر آتی ہے۔