الوقت- تار کین وطن جن ممالک سے گزرتے ہیں یا جن ممالک کا رخ کرتے ہیں ان کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہنگری نے اپنی سرزمین میں تارکین وطن کے داخلے کی روک تھام تکے لئے سخت تدابیر اختیار کیں۔ اسی کے تحت غیر قانونی طور پر اس ملک میں داخل ہونے والوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ان کےساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے کیونکہ حالیہ دنوں کے دوران ہزاروں پناہ گزیں کہ جن میں سے اکثر کا تعلق شام سے ہے، ہنگری میں داخل ہونے کے بعد آسٹریا کی سرحدوں پر پہنچ گئے اور انہوں نے یورپی ممالک سے پناہ کی درخواست کر دی ہے۔ دریں اثنا ہنگری کے پولیس اہلکاروں اور ان پناہ گزینوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئيں جو ہنگری میں داخلے ہونے کی کوشش کر رہے تھے یا جنہوں نے اپنے امور میں تاخیر ہونے کی وجہ سے مظاہرہ کیا تھا۔ اس جھڑپ کے بعد ہنگری کی پولیس نے بعض پناہ گزینوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ اسی سلسلے میں ہنگری نے سربیا کے ساتھ ملحق اپنی خار دار باڑ بھی تعمیر کی ہے تاکہ پناہ گزینوں کی ہنگری میں داخلے اور دوسرے یورپی ممالک کی جانب ان کی مہاجرت کی روک تھام کی جا سکے۔ یہ باڑ ایک سو پچھتر کلومیٹر لمبی ہے اور اس کی تعمیر کے بارے میں اختلافات پائے جاتے تھے لیکن آخر کار ہنگری کی حکومت نے اس کو مکمل کیا۔ ہنگری کی حکومت نے اپنے اس اقدام کی وجہ سے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اب کے بعد بالکان زون سے بہت کم پناہ گزین جنوبی یورپ اور وہاں سے شمالی اور مغربی یورپ جائیں گے۔ ہنگری جانے والے پناہ گزینوں کی اکثریت آسٹریا اور جرمنی جانے کی متمنی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہےکہ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے کہا ہےکہ یورپ کی جانب نقل مکانی کرنے والے افراد جرمنی کا مسئلہ ہیں کیونکہ یورپی یونین میں داخل ہونے والوں کی منزل جرمنی ہوتی ہے۔ ہنگری پناہ گزینوں کے ناموں کے اندراج کےبغیران کو اپنی سرزمین سے جانے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں نے ہنگری میں پناہ گزینوں کی جانب غذائي اشیا توہین آمیز طریقے سے پھینکے جانے، پناہ گزین کیمپوں میں ان کی ابتر صورتحال اور سرحدی علاقوں میں ان سے دیوار تعمیر کرانے پر مبنی ہنگری کے اقدامات پر تنقید کی ہے۔ ہنگری نےیہ اقدامات ایسی حالت میں انجام دیئےہیں کہ جب جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے داخلہ اٹلی اور یونان میں پناہ گزینوں کے ناموں کے اندراج کے لۓ مزید مراکز قائم کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جرمنی کے وزیر داخلہ نے پیرس میں فرانس اور برطانیہ کے وزرائے داخلہ کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک ان ممالک کو یہ کام کر دینا چاہئے۔ دوسری جانب یورپی یونین کے حکام یورپی ممالک میں مہاجرین اور پناہ گزینوں کی مساویانہ تقسیم کے خواہاں ہیں۔ لیکن بعض ممالک اس کے مخالف ہیں۔ دریں اثناء یورپی پارلیمنٹ کے سربراہ نے ہنگری سے اپیل کی ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے پناہ گزینوں کےبحران کا مشترکہ حل تلاش کریں۔ آسٹریا کی حکومت نے بھی ہنگری کے رویئے پر تنقید کرتے ہوئے پناہ گزینوں کے ساتھ ہنگری کی حکومت کے رویۓ کو دوسری عالمی جنگ کے دوران کے دنوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے رائے عامہ کے نزدیک یورپ کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اعداد و شمار سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ شام کے چھہتر لاکھ بے گھر افراد شام کے اندر ہیں اور چالیس لاکھ بےگھرافراد اس ملک سے باہر جاچکےہیں۔ اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعلان کے مطابق رواں سال کے اختتام تک اس تعداد میں ستائیس ہزار افراد کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔