الوقت- مروجہ عالمی سیاست کا بنیادی اصول ملکی مفاد کا حصول اوراسکا دفاع ہے البتہ صرف نظریاتی ریاستیں بعض اوقات اپنے نطرئیے اور وسیع اھداف کے لئے اپنے ملکی مفادات کو بھی داؤ پر لگادیتی ہیں جسکی ایک مثال فلسطین کے بارے میں ایران کا اصولی موقف ہے۔تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ سامراجی طاقتیں صرف اور صرف اپنے مقاصد کے لئے داخلی اور خارجہ پالیسیاں تشکیل دیتی ہیں۔ امریکہ نے اپنے اھداف کے لئے پہلے بشار اسد کو شام میں اقتدار سے الگ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اب وہی امریکہ پینترے بدل کر یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ شام کے صدر کو اقتدار سے ہٹنا ہوگا لیکن کوئي ضروری نہیں یہ کام فورا کیا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ نے سنیچر کے دن لندن میں برطانوی وزیر خارجہ فیلیپ ہیمنڈ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ روس اور ایران، شام کے بحران کو حل کرنے کی غرض سے مذاکرات میں بشار اسد کو شریک کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ جان کیری کے بقول امریکہ اور اس کے اتحادی شام کے بحران کا حل اور داعش کی نابودی ساتھ ساتھ چاہتے ہیں البتہ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ بشار اسد کے طویل مدت تک اقتدار پر براجمان رہنے سے یہ ھدف حاصل نہیں ہوسکتا۔ شام کے بحران کے تعلق سے امریکی وزیر خارجہ کا یہ موقف شام کے حالات کے بارے میں امریکہ کی پالیسیوں میں تبدیلی کی نشانی ہے۔ امریکہ نے ان پانچ برسوں میں جب سے شام کا بحران شروع ہوا ہے اپنے اتحادیوں کےساتھ مل کر صدر بشار اسد کو سرنگون کرنے کی ہر ممکن کوشش کرڈالی ہے ، امریکہ کی ان کوششوں میں مختلف دہشتگرد گروہوں کی مالی اور لاجیسٹیک حمایت شامل ہے۔ ان کوششوں کے باوجود جو حقیقت سامنے آئي ہے وہ بشار اسد کی پائداری ہے اور اسی بنا پر وثوق سے کہا جاسکتا ہےکہ شام کے بحران کا واحد راہ حل مذاکرات ہے۔ اس سے قبل امریکہ، برطانیہ، فرانس اور علاقے کے بعض ملکوں کا کہنا تھا کہ دہشتگرد گروہ داعش پر غلبہ حاصل کرنے اور شام کا بحران حل کرنے کےلئے بشار اسد کے ساتھ مذاکرات کا کوئي سوال نہیں پیدا ہوتا۔ یہ ممالک کسی بھی طرح سے صدر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے تھے۔ دہشتگردوں کو ٹریننگ دینا اور انہیں ہتھیاروں سے لیس کرنا وہ واحد راہ تھی جسے امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے بشار اسد سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لئے اپنایا تھا لیکن شام میں حالات کے بدلنے اوردہشتگردوں کے مقابل میدان جنگ میں شامی فوج کی برتری نیز شام کے تعلق سے روس کی منظم پالیسیوں کی بنا پر امریکہ شام کے تعلق سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ امریکہ جب تک صدر بشار اسد کو طاقت کے بل بوتے پر اقتدار سے ہٹانے پر اصرار کرتا رہا روس نے شام میں اپنی پوزیشن مستحکم کرلی اور شام کے لئے مختلف طرح کے ہتھیار اور فوجی ساز وسامان بھیج دئے۔ اس کے علاوہ روس کے اعلی حکام نے صراحت سے اعلان کیا ہے کہ بشار اسد کی حکومت بدستور طاقتور اور داعش کی نابودی کا واحد راستہ بشار اسد کی حمایت ہے۔ روس کی جانب سے مشرق وسطی میں اپنے دیرینہ اتحادی کی بھرپور حمایت اس بات کا سبب بنی ہےکہ امریکہ اور اس کے اتحادی شام کے خلاف اپنی پالیسیوں میں لچک لائيں اور شام کا بحران حل کرنے نیز دہشتگردی پر قابو پانے کےلئے صدر بشار اسد کے ساتھ مذاکرات کی بات کریں ۔شام کا بحران حل کرنے کے لئے دہشتگردی کی نابودی ضروری ہے نہ کہ صدر بشار اسد کا اقتدار سے ہٹنا، اسی بنا پر تہران اور ماسکو شام کے بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں پہلے دہشتگردی کو ختم کرنے پر تاکید کرتے ہیں اور اسی دائرہ کار میں روس شام کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑا ہوا ہے۔ شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے بنیادی طریقہ دہشتگردی سے مقابلہ اور شام کے عوام کے حق خودارادیت پر توجہ کرنا ہے۔ دہشتگردی کی نابودی کے لئے متفقہ میکینیزم سیاسی مرحلے میں داخل ہونے کا دروازہ ہے اور اس مرحلے میں شام کے عوام انتخابات میں شرکت کرکے یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ صدر بشار اسد کو اقتدار میں رہناچاہیے یا نہیں رہنا چاہیے۔ کاش امریکہ یہی فیصلہ چار سال پہلے کرلیتا تو نہ دہشتگردی کو فروغ ملتا نہ شام تباہ ہوتا اور نہ ہی شام سے نقل مکانی کرنے والوں لاکھوں بے گھر اور آوارہ وطنوں کا یہ حال ہوتا۔