الوقت- مریکی وزیر خارجہ جان کیری نےلندن میں متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید سے ملاقات میں کہا ہے کہ امریکہ اور خلیج فارس کے عرب ممالک بقول ان کے ایران کی عدم استحکام لانے والی پالیسیوں کا مقابلہ جاری رکھنے کے لئے باہمی تعاون کی ضرورت پر متفق ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ جمعے کو لندن پہنچے تھے تا کہ بحران شام کے بارے میں تبادلہ خیال کرسکیں۔
ایٹمی مسئلے میں ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدہ کے بعد ایران کے خلاف امریکہ کے یہ دعوے کہ ایران خطرہ ہے اب کافی حد تک ختم ہوچکے ہیں لیکن ایرانوفوبیا کا پروجیکٹ ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور یہ سلسلہ جھوٹے الزامات کے سہارے بدستور جاری ہے۔ امریکی صدر اوباما نے بھی ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے کے بعد سی این این کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا اگلا قدم علاقے میں ایران کی پالیسیوں سے لاحق نام نہاد تشویشوں میں کمی لانا ہوگا۔ امریکی حکام نے گذشہ چند مہینوں میں اپنے نام نہاد روایتی اتحادیوں منجملہ خلیج فارس میں ایران کے ہمسایہ ملکوں سے ملاقاتوں میں یہ وعدے کئے ہیں کہ بقول ان کی جس چیز کو وہ ایران کے خطرے کہتے ہیں اس کے مقابل ان کی سیکورٹی کی تقویت کریں گے۔ امریکہ علاقے میں ایرانوفوبیا سے کئي اھداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق امریکہ نے حالیہ برسوں میں خلیج فارس کے عرب ملکوں کے ساتھ دو سو ارب ڈالر سے زائد کے اسلحہ جاتی معاہدے کئے ہیں حالانکہ ان معاہدوں سے علاقے میں قیام امن میں کوئي فائدہ نہیں ہوگا۔ خلیج فارس کے عرب ممالک ماضی کو نظر میں رکھ کر یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایران کے ساتھ کشیدگي پیدا کرنے سے انہیں نہ صرف یہ کہ کوئي فائدہ نہیں ہوگا بلکہ انہیں اس کا الٹا نقصان بھی ہوا ہے۔ عراق کے خونخوار ڈکٹیٹر صدام حسین کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد کرنے میں اپنی غلطی کا اعتراف اس حقیقت کا عینی ثبوت ہے۔ مغربی ممالک برسوں سے خلیج فارس کے عرب ملکوں بالخصوص سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرکے اس سے اپنی معیشت کے رکے ہوئے پہيے چلارہے ہیں۔درحقیقت وہ یہ تصور کررہے ہیں کہ ان کے ہاتھ ایک بڑا خرانہ لگ گیا ہے جو وہ اپنےدرمیان تقسیم کرناچاہتے ہیں۔ بعض رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے فنڈز میں دو ہزار ارب ڈالرسرمایہ ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ مغربی ممالک مختلف طرح کے میزائل اور پیشرفتہ طیارے فروخت کرکے ان ملکوں سے ڈالروں کی بھاری رقم واپس لاسکتے ہیں۔ البتہ اس بھاری رقم کا علاقے کی سیکورٹی سے کوئي تعلق نہیں ہے جبکہ اس خطیر رقم سے علاقائي ملکوں کے عوام کے حالات بہتر بنانے اور ان کی ترقی کے لئے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ خلیج فارس کے عرب ملکوں کو بے بنیاد خطروں میں الجھنے کےبجائے سیاسی اصلاحات اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے سعودی عرب میں تیس فیصد جوان بے روزگار ہیں۔ امریکی حکام یہ ظاہر کررہے ہیں کہ ایران علاقے کے ملکوں کے لئے خطرہ ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے گذشتہ روز جمعے کولندن سے شائع ہونے والے اخبار الشرق الاوسط سے انٹرویو میں زور دے کرکہا ہے کہ ایران علاقے میں اہم کردار کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ یہ کوشش کررہے ہیں کہ ایران کے کردار سے علاقے کے بحرانوں کوحل کرنے کے لئے مدد لیں۔ امریکہ نے دراصل خلیج فارس کے عرب ملکوں کو علاقے کو ویران کرنے کے وسیلے میں تبدیل کردیا ہے اور انہيں شام، عراق، یمن اور بحرین میں تخریبی کردارا ادا کرنے کی طرف لے گيا ہے۔ یاد رہے خلیج فارس کے یہ عرب ممالک شام، عراق،یمن اور بحرین میں لاکھوں افراد کے قتل عام اور آوارہ وطن ہونے کے ذمہ دار ہیں۔ امریکہ ان اقدامات کو علاقے میں امن قائم کرنے کی کوششوں سےتعبیر کرتا ہے اور انکی حمایت بھی کرتا ہے اور علاقے کے بنیادی خطرے یعنی اسرائیل اور داعشی و صیہونی خطرے کو اس نے عملا نظر انداز کردیا ہے ۔امریکہ کا یہی رویہ ثابت کرتا ہے کہ وہ خلیجی ممالک کو ایران سے ڈرا دھمکا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے