الوقت- گذشتہ دنوں میں مسجد اقصٰی پرصیہونی رژیم کے فوجیوں کا چند بارحملہ دیکھنے میں آیا۔ صہیونیوں نے نئے عبرانی سال کے آغاز میں اپنے اسرائیلی وزیر زراعت اوری ایرئیل کی ہمراہی میں مسجد اقصٰی پر حملہ کیا اور وہاں تعینات اردنی نگہبانوں کو باہرنکال کے مسجد اقصٰی کے دروازوں کو بند (روکاوٹیں کھڑی کرکے) i کر دیا۔ صیہوںی فوجیوں کی جانب سے مسجد اقصٰی کی بے حرمتی کرنے پرانہیں ملکی، علاقائی اور عالم اسلام کی جانب سے وسیع پیمانے پرشدید مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مسجد اقصٰی پر صیہونیوں کے حملے پرایران، تحریک جہاد اسلامی، حماس، ترکی، مصر، اردن، او آئی سی اور فلسطینی اتھارٹیز کی طرف سے شدید مذمت کی گئی۔
90ء کی دہائی سے قدس شریف کو یہودیانے اور مسجد اقصٰی کی بےحرمتی کرنے کے عمل میں بہت شدت آئی ہے۔ اس دہائی میں عرب ممالک، تنظیم آزادی فلسطین اورالفتح کی جانب سے صیہونی حکومت کے ساتھ سرد مہری پر مبنی صلح بھی دیکھنے میں آئی، آج عرب ممالک کی جانب سے فلسطینی قوم کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے، اس وقت فلسطینی قوم اپنے رحم و کرم پر ہے، اب وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ملت فلسطین اپنی آزادی اور صیہونیوں سے رہائی پانے کے لئے تیسرے انتفاضہ کا آغاز کرے۔
صیہونیوں کے ہاتھوں قدس جیسی جگہ جو مسلمانوں اورعیسائیوں دونوں کے لئے نہایت مقدس ہے، کی بےحرمتی نے یہ فرصت فراہم کی کہ وہ لوگ جو انصاف پسند ذہن رکھتے ہیں، انہیں فلسطینوں کے پتھر کےقیام کی طرف متوجہ کرے۔ قطعی طور پر اپنے آئین اور مذہبی مناسک کے لئے جدوجہد شرق و غرب کی تمام آزادی طلب اقوام کے لئے مورد احترام و استقبال قرار پاتی ہے۔
سرزمینِ فلسطین پر اب تک دو انتفاضے وقوع پذیر ہوئے۔ 8 ستمبر1987ء میں پہلا انتفاضہ یا انتفاضہ سنگ شروع ہوا۔ اس انتفاضہ میں فلسطینوں نے اسرائیل کا اصلی چہرہ لوگوں کو دکھا دیا، اسرائیل جس نے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، اس کی اصل تصویر لوگوں کے سامنے آگئی۔ حتٰی ان عرب مملکتوں کے سامنے کہ جو مسئلہ فلسطین کو بتدریج فراموش کر چکی تھیں۔ آخر کار 1993ء میں یہ انتفاضہ پی ایل او اور اوسلو سمجھوتے اور پی ایل او کے غزہ میں داخلے پر اختتام پذیر ہوا۔
دوسرے انتفاضہ کا آغاز 25 ستمبر2000ء میں ایرئیل شیرون کے دورہ مسجد اقصٰی سے ہوا۔ 3000 صیہونیوں کی موجودگی میں ایرئیل شیرون نے مسجد اقصٰی کے کھنڈرات پر ہیکل سلیمانی کی تعمیرکے کام کو مشروع اور جائز قرار دیا۔ انتفاضہ دوم کے خاتمے کے لئے صیہونی رژیم کے ظلم اس قدر گھناونے تھے کہ حتٰی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے دوران اس رژیم کے خلاف جو مذمتی قرارداد پیش کی گئی، تو سلامتی کونسل کے 15 میں 14 اراکین نے اس کے حق میں مثبت رائے دی۔ صرف امریکہ وہ واحد ملک تھا جس نے اسرائیل کا بہت بڑا حامی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس قرارداد کے خلاف رائے دی۔ اب اگر تیسرا عوامی انتفاضہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر شروع نہ ہوا تو صیہونی تحریک، اس رژیم کی کابینہ اور یہودی انتہا پسند آبادکار فلسطینیوں پر حملوں اور انہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے، تاکہ وہ مجبور ہو کر اپنے گھر بار ترک کردیں، یا پھر صیہونی رژیم کے سامنے تسلیمِ محض ہو جائیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں سول سوسائٹی فلسطینیوں کے درد و رنج سے بطورعمیق آگاہ ہے، لیکن آیا یورپی کہ جو اسرائیلیوں کو مقدس سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کا قتل عام کیا گیا، ان کی اس رائے میں بھی کوئی خلل ایجاد ہوا یا نہیں، اور آیا صیہونی رژیم کی مذمت کا مطالبہ ھمہ جانبہ ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی اپنی اس جنگ میں تنہا ہیں، یہاں تک کہ عرب ممالک نے بھی کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے باوجود مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیا ہے، کیا انہوں نے سوائے مذمتی بیانات اور مالی امداد کے علاوہ کسی دوسرے کام میں ان کے لئے کچھ کیا ہے؟ ان حالات میں یہ لازمی امر ہے فلسطینی خود اٹھ کھڑے ہوں اور تیسرے انتفاضے کو شروع کرتے ہوئے اپنی ندائے مظلومیت کو ساری دنیا کے کانوں تک پہنچائیں اور اپنے حق خود ارادیت کو صیہونی رژیم کے مقابلے میں ثابت کریں، تاکہ صیہونی اس قدر زور زبردستی دکھاتے ہوئے مسجد اقصٰی اور فلسطینیوں کے گھروں کو اپنے حملوں کا نشانہ نہ بنائیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کا وہ بیان جس میں انہوں نے فرمایا کہ غزہ کی طرح مغربی کنارے کو بھی مسلح کیا جائے، تاکہ انتفاضہ سوم بھی دوسرے دو انتفاضوں کی طرح ناکام نہ ہو اور اپنا دفاع کر سکے۔ بیشک فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد اسرائیل کی زیادہ خواہی کے مقابلے میں فلسطینیوں کی طاقت، نفوذ اور مقاومت میں اضافے کا باعث بنے گی۔